Al-Quran-al-Kareem - Maryam : 83
اَلَمْ تَرَ اَنَّاۤ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ تَؤُزُّهُمْ اَزًّاۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اَنَّآ اَرْسَلْنَا : بیشک ہم نے بھیجے الشَّيٰطِيْنَ : شیطان (جمع) عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) تَؤُزُّهُمْ : اکساتے ہیں انہیں اَزًّا : خوب اکسانا
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بیشک ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے، وہ انھیں ابھارتے ہیں، خوب ابھارنا۔
ۧاَلَمْ تَرَ اَنَّآ اَرْسَلْنَا الشَّيٰطِيْنَ۔۔ :”اَزَّا“ قاموس میں ہے : ”أَزَّ یَءِزُّ“ اور ”اَزَّ یَؤُزُّ اَزًّا“ (ض، ن) ”أَزَّ الشَّیْءَ“ اس نے کسی چیز کو سخت حرکت دی۔ ”اَزَّ النَّارَ“ اس نے آگ کو بھڑکایا۔ ”اَزَّتِ الْقِدْرُ“ ہانڈی سخت ابلنے لگی۔ ”أَزِیْزٌ کَأَزِیْزِ الْمِرْجَلِ“ ہانڈی ابلنے جیسی آواز۔ یعنی کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کافر لوگ، جنھوں نے طے کر رکھا ہے کہ انھوں نے کسی صورت حق کو تسلیم نہیں کرنا، ہم نے ان پر شیاطین کو مسلط کردیا ہے، جو انھیں برائی پر شدت سے ابھارتے رہتے ہیں اور انھیں گناہوں کی آگ میں اس طرح مسلسل جھونکے رکھتے ہیں کہ وہ اسی پیچ و تاب میں ہانڈی کی طرح ابلتے اور شعلوں کی طرح بھڑکتے رہتے ہیں۔ (بقاعی) اس آیت کی ہم معنی اور وضاحت کرنے والی آیات کے لیے دیکھیے سورة زخرف (36، 37) ، حم السجدہ (25) ، اعراف (202) اور بنی اسرائیل (64)۔
Top