Al-Quran-al-Kareem - Maryam : 85
یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًاۙ
يَوْمَ : جس دن نَحْشُرُ : ہم جمع کرلیں گے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع) اِلَى الرَّحْمٰنِ : رحمن کی طرف وَفْدًا : مہمان بنا کر
جس دن ہم متقی لوگوں کو رحمان کی طرف مہمان بناکر اکٹھا کریں گے۔
ۚيَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِيْنَ۔۔ : ”وَفْدًا“ ”وَافِدٌ“ کی جمع ہے۔ ”وَفَدَ یَفِدُ وَفْدًا وَ وُفُوْدًا“ بروزن ”وَعَدَ یَعِدُ“ کسی کے پاس جانا۔ وفد چند آدمیوں کی جماعت کو کہتے ہیں جو کسی اہم کام کے لیے یا کوئی عطیہ حاصل کرنے کے لیے کسی بادشاہ یا بڑی شخصیت کے پاس جائے۔ ”نَسُوْقُ“ ”سَاقَ یَسُوْقُ سَوْقًا“ بروزن ”قَالَ یَقُوْلُ“ جانوروں کو ہانکنا۔ بعض اوقات کسی کو بھی چلانے کے معنی میں آجاتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَسِيْقَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا) [ الزمر : 73 ] ”اور وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈر گئے، گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جائے جائیں گے۔“ ”الْمُجْرِمِيْنَ“ جرم وہ گناہ جسے کرنے والا سزا کا حق دار ہو۔ ”وِرْدًا“ ”وَارِدٌ“ کی جمع ہے۔ ”وَرَدَ یَرِدُ وُرُوْدًا“ پانی پینے کے لیے جانا، چونکہ اس مقصد کے لیے پیاسا ہی جاتا ہے، اس لیے ”وِرْدًا“ کا معنی ”پیاسے“ ہے۔ ان آیات میں متقین اور مجرمین کا انجام بیان ہوا ہے۔ پہلی آیت میں رحمٰن کی طرف جانے کا ذکر فرمایا، جنت وغیرہ کا ذکر نہیں فرمایا، یعنی متقی لوگ رحمٰن کے معزز مہمان بن کر جائیں گے۔ دنیا میں شاہی مہمانوں کے قدم زمین پر نہیں ٹکتے، اس دن بیحد و بےانتہا رحم والے، شاہوں کے شاہ کے معزز مہمانوں کے اعزازو اکرام کا اندازہ کون کرسکتا ہے ؟ دوسری آیت میں جہنم کا ذکر ہے، رحمٰن کا ذکر نہیں۔ کیونکہ آخر دم تک جرم سے باز نہ آنے والے مجرم اس رحمٰن کے کسی رحم کے مستحق نہیں جو زمین و آسمان سے بھی زیادہ گناہوں کو سچے دل سے معافی کی ایک درخواست پر معاف کردیتا ہے۔ سورة زمر (71 تا 73) میں متقین اور کفار کے اس مرحلے کا تفصیل سے ذکر آیا ہے۔
Top