Al-Quran-al-Kareem - Maryam : 88
وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًاؕ
وَقَالُوا : اور وہ کہتے ہیں اتَّخَذَ : بنالیا ہے الرَّحْمٰنُ : رحمن وَلَدًا : بیٹا
اور انھوں نے کہا رحمان نے کوئی اولاد بنا لی ہے۔
پہلی آیات سے مناسبت یہ ہے کہ جب شفاعت کی نفی فرمائی اور سب سے بڑھ کر شفاعت کی حق دار اولاد ہوتی ہے، اس لیے ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دے رکھی تھی، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بات کی نفی فرمائی، تاکہ خاص و عام ہر سفارشی کی نفی ہوجائے اور ہر اس عزت کی نفی ہوجائے جس کے حصول کا باعث وہ اپنے معبودوں کو سمجھتے تھے۔ (بقاعی) وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا : اللہ تعالیٰ نے ان کا قول نقل کرتے ہوئے ساتھ ہی اس کے باطل ہونے کی دلیل بھی ذکر فرما دی کہ وہ کہتے ہیں کہ اس رحمٰن نے اولاد بنا رکھی ہے جس کی بےپناہ رحمت سے ساری کائنات وجود میں آئی ہے اور ہر چیز اپنی بقا کے لیے اسی کی محتاج ہے، جبکہ وہ کسی کا محتاج نہیں، سب اس کے محتاج ہیں، فرمایا : (يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللّٰهِ) [ فاطر : 15 ] ”اے لوگو ! تم ہی اللہ کی طرف محتاج ہو اور اللہ ہی سب سے بےپروا، تمام تعریفوں کے لائق ہے۔“ بیٹا باپ کا محتاج نہیں ہوتا، بلکہ باپ اپنی کمزوری کی وجہ سے اولاد کا محتاج ہوتا ہے اور جس عقیدے، یعنی مسیح کو کفارہ بنانے کے لیے اسے اللہ کا بیٹا قرار دیا ہے، اللہ تعالیٰ کو رحمٰن ماننے کے بعد اس کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ 3 یہود عزیر ؑ کو اور نصاریٰ مسیح ؑ کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہتے تھے اور مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے، جبکہ امت مسلمہ کے کئی نادان رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کا جزو قرار دیتے ہیں۔ rnۭلَقَدْ جِئْتُمْ شَـيْــــــًٔـا اِدًّا۔۔ : اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد قرار دینے والوں کا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ تھا، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شدت غضب میں ان ظالموں کو مخاطب فرما کر بات کی اور تاکید کے دو لفظوں ”لام“ اور ”قَدْ“ کے ساتھ، جن کے جمع ہونے سے قسم کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے، فرمایا قسم ہے کہ تم ایک بہت ہی بھاری بات تک آپہنچے ہو، جو اس قدر خوفناک اور بھاری ہے کہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے تصور اور اس بات کے بوجھ سے ”سَبْعٌ شِدَادٌ“ یعنی ساتوں نہایت مضبوط آسمان پھٹ پڑیں، یہ وسیع اور محکم زمین شق ہوجائے اور انتہائی ٹھوس اور سخت پہاڑ مٹی کی بوسیدہ دیوار کی طرح ڈھے کر گرپڑیں کہ ان لوگوں نے (یہاں پھر نفرت سے مشرکوں کا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ کیا ہے) رحمن کے لیے اولاد کا دعویٰ کردیا، حالانکہ رحمٰن کے لائق ہی نہیں کہ وہ (کسی کو بھی، خواہ پیغمبر ہو یا فرشتہ) اولاد بنائے۔ قوسین کے الفاظ مفعول اول ہیں جو محذوف ہیں، ”وَلَداً“ مفعول ثانی ہے، یعنی اس کی اولاد ہونا ناممکن اور محال ہے، اس لیے کہ اولاد ہم جنس ہوتی ہے اور اللہ کا کوئی ہم جنس نہیں۔ پھر اولاد کمزوری میں سہارے کے لیے ہوتی ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ ہر کمزوری سے پاک اور اپنی ذات وصفات میں ہر ایک سے بےنیاز ہے۔ وہ ہمیشہ سے عزیز و غالب ہے اور ہمیشہ عزیز و غالب رہے گا۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل کی آخری آیت کی تفسیر۔ اس کے علاوہ اولاد بیوی سے ہوتی ہے اور خاوند بیوی کا محتاج ہوتا ہے، جب اللہ کی بیوی ہی نہیں اور وہ کسی کا محتاج ہی نہیں تو اولاد کیسی ؟ فرمایا : (اَنّٰى يَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ) [ الأنعام : 101 ] ”اس کی اولاد کیسے ہوگی، جبکہ اس کی کوئی بیوی نہیں۔“ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا : آسمان و زمین میں جو بھی ہے اس کا غلام بن کر حاضر ہونے والا ہے۔ اگر کوئی اولاد ہوتی تو غلام کیسے ہوتی ؟ لَقَدْ اَحْصٰىهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا : اللہ تعالیٰ نے سب کا احاطہ کر رکھا ہے، ایک ایک اس کے شمار میں ہے اور سب اکیلے اکیلے اس کے پاس آنے والے ہیں، اگر زمین و آسمان میں کوئی بھی اس کی اولاد ہوتا تو یقیناً اسے معلوم ہوتا۔ کیا تم اللہ سے بھی زیادہ باخبر ہو، فرمایا : (قُلْ اَتُنَبِّـــــُٔوْنَ اللّٰهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ) [ یونس : 18 ] ”کہہ دے کیا تم اللہ کو اس چیز کی خبر دیتے ہو جسے وہ نہ آسمانوں میں جانتا ہے اور نہ زمین میں ؟“ نیز دیکھیے سورة یونس (68) ، بنی اسرائیل (40) اور نجم (19 تا 22) ابوموسیٰ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (لَیْسَ أَحَدٌ أَصْبَرَ عَلٰی أَذًی سَمِعَہٗ مِنَ اللّٰہِ إِنَّھُمْ لَیَدْعُوْنَ لَہٗ وَلَدًا وَ إِنَّہٗ لَیُعَافِیْھِمْ وَیَرْزُقُھُمْ) [ بخاری، الأدب، باب الصبر في الأذی : 6099 ] ”اللہ تعالیٰ سے زیادہ تکلیف دہ بات پر صبر کرنے والا، جسے وہ سن رہا ہو اور کوئی نہیں۔ لوگ اس کے لیے اولاد بتاتے ہیں اور وہ (اس کے باوجود) انھیں عافیت دیتا ہے اور رزق دیتا ہے۔“
Top