Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 104
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْا١ؕ وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يَا اَيُّهَا الَّذِیْنَ : اے وہ لوگو جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَقُوْلُوْا : نہ کہو رَاعِنَا : راعنا وَقُوْلُوْا : اور کہو انْظُرْنَا : انظرنا وَاسْمَعُوْا : اور سنو وَلِلْکَافِرِیْنَ ۔ عَذَابٌ : اور کافروں کے لیے۔ عذاب اَلِیْمٌ : دردناک
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! تم رَاعِنَا (ہماری رعایت کر) مت کہو اور اُنْظُرْنَا (ہماری طرف دیکھ) کہو اور سنو۔ اور کافروں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔
(رَاعِنَا) ”رَاعِ“ یہ باب مفاعلہ (مراعاۃ) سے فعل امر ہے، یعنی ہماری رعایت کیجیے۔ مسلمان رسول اللہ ﷺ کو متوجہ کرنے کے لیے یہ لفظ استعمال کرتے، یہودی بھی اس لفظ کے ساتھ آپ کو مخاطب کرتے، مگر زبان کو پیچ دے کر لفظ بدل دیتے، جیسا کہ سورة نساء (46) میں ہے، جس سے وہ لفظ گالی بن جاتا۔ مفسرین نے اس کی دو صورتیں بیان فرمائی ہیں، ایک تو یہ کہ وہ ”رَاعِنَا“ کی بجائے ”رَاعِیْنَا“ کہتے، جس کا معنی ”ہمارا چرواہا“ ہے۔ دوسری یہ کہ وہ اسے رعونت سے اسم فاعل قرار دے کر ”رَاعِنًا“ کہتے جس کا معنی احمق ہے اور منادیٰ غیر معین کو خطاب کی وجہ سے منصوب ہے، پھر آپس میں جا کر خوش ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو آپ کے لیے یہ لفظ استعمال کرنے ہی سے منع فرما دیا اور ”انْظُرْنَا“ کہنے کا حکم دیا، ساتھ ہی فرمایا کہ غور سے سنو، تاکہ رسول اللہ ﷺ کو متوجہ کروانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اس سے یہودیوں کی دشمنی، ان کی طبیعت کی خست اور شرارت صاف واضح ہے۔ مسلمانوں کو ان کے اعمال کے علاوہ ان کے الفاظ و اقوال کی مشابہت سے بھی منع فرمایا گیا، جیسا کہ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ)”جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انھی میں سے ہے۔“ [ أبوداوٗد، اللباس، باب فی لبس الشھرۃ : 4031 و حسنہ الألبانی ] اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسے الفاظ جن میں بےادبی یا گستاخی کا شبہ بھی پیدا ہوتا ہو، وہ استعمال کرنا درست نہیں۔ یہودیوں کی اسی طرح کی ایک اور کمینگی کا ذکر حدیث میں آیا ہے کہ وہ ”السلام علیکم“ کے بجائے ”اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ“ کہتے، جس کا معنی ہے تم پر موت ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے جواب میں صرف ”عَلَیْکَ“ کہنے کا حکم دیا کہ وہ تمہیں پر ہو۔ [ مسلم، السلام، باب النہی عن ابتداء۔۔ : 2164
Top