Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Baqara : 127
وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُ١ؕ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَ : اور اِذْ : جب يَرْفَعُ : اٹھاتے تھے اِبْرَاهِيمُ : ابراہیم الْقَوَاعِدَ : بنیادیں مِنَ الْبَيْتِ : خانہ کعبہ کی وَ : اور اِسْمَاعِيلُ : اسماعیل رَبَّنَا : ہمارے رب تَقَبَّلْ : قبول فرما مِنَّا : ہم سے اِنَکَ : بیشک اَنْتَ : تو السَّمِيعُ : سننے والا الْعَلِيمُ : جاننے والا
اور جب ابراہیم اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہا تھا اور اسماعیل بھی۔ اے ہمارے رب ! ہم سے قبول فرما، بیشک تو ہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
الْقَوَاعِدَ بنیادیں، ابن عباس ؓ نے فرمایا، یعنی بیت اللہ کی وہ بنیادیں جو اس سے پہلے موجود تھیں۔ [ تفسیر عبد الرزاق بسند صحیح ] اس سے معلوم ہوا کہ بیت اللہ پہلے تعمیر ہوچکا تھا، اب از سر نو اس کی بنیادیں اٹھائی جا رہی تھیں۔ سورة حج (26) میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ کے لیے بیت اللہ کی جگہ متعین فرمائی۔ مزید دیکھیے سورة آل عمران (96)۔ اس کے بعد بیت اللہ کئی دفعہ تعمیر ہوا۔ جاہلیت میں جب سیلاب سے کعبہ منہدم ہوگیا تو قریش نے دوبارہ اس کی تعمیر کی، مگر مال کی کمی کی وجہ سے اس کا کچھ حصہ باہر چھوڑ دیا، جسے حطیم کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ بھی اس کے لیے پتھر اٹھا کر لاتے رہے۔ ابن اسحاق کے مطابق آپ کی عمر اس وقت 35 سال تھی، پھر آپ ہی نے قریش کے جھگڑے میں حجر اسود کا فیصلہ فرمایا اور اسے اس کے مقام پر اپنے دست مبارک سے رکھا۔ دور اسلام میں پہلی مرتبہ عبداللہ بن زبیر ؓ نے اسے ابراہیم ؑ والی بنیادوں پر تعمیر کیا، اس کے بعد عبد الملک کے دور خلافت میں حجاج بن یوسف نے اسے گرا کر دوبارہ اسی طرح بنادیا جس طرح جاہلیت میں بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد مختلف بادشاہ اسی عمارت کی مرمت و تزئین کرتے رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”کعبہ کو حبشیوں میں سے ایک پتلی پنڈلیوں والا برباد کرے گا۔“ [ بخاری، الحج، باب قول اللہ تعالیٰ : (جعل اللہ الکعبۃ۔۔) : 1591۔ مسلم، الفتن، باب لا تقوم الساعۃ۔۔ : 7306 ]
Top