Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 136
قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰى وَ مَاۤ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ١ۚ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ١ۖ٘ وَ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ
قُوْلُوْا : کہہ دو اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللّٰہِ : اللہ پر وَمَا : اور جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْنَا : ہماری طرف وَمَا : اور جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلٰى : طرف اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم وَاِسْمَاعِيلَ : اور اسماعیل وَاِسْحَاقَ : اور اسحاق وَيَعْقُوْبَ : اور یعقوب وَالْاَسْبَاطِ : اور اولاد یعقوب وَمَا : اور جو أُوْتِيَ : دیا گیا مُوْسٰى : موسیٰ وَعِيسٰى : و عیسیٰ وَمَا : اور جو أُوْتِيَ : دیا گیا النَّبِيُّوْنَ : نبیوں کو مِنْ : سے رَبِّهِمْ : ان کے رب لَا نُفَرِّقُ : ہم فرق نہیں کرتے بَيْنَ اَحَدٍ : کسی ایک کے درمیان مِنْهُمْ : ان میں سے وَنَحْنُ لَهٗ : اور ہم اسی کے مُسْلِمُوْنَ : فرمانبردار
کہہ دو ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر جو ہماری طرف اتارا گیا اور جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اس کی اولاد کی طرف اتارا گیا اور جو موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا گیا اور جو تمام نبیوں کو ان کے رب کی طرف سے دیا گیا، ہم ان میں سے کسی ایک کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اسی کے فرماں بردار ہیں۔
(وَالْاَسْبَاطِ) یہ ”سِبْطٌ“ کی جمع ہے، جس کا معنی آسانی سے پھیلنا ہے۔ اولاد کی اولاد کو بھی اسی پھیلاؤ کی وجہ سے ”سِبْطٌ“ کہتے ہیں۔ (مفردات) یعقوب ؑ کے بارہ بیٹے تھے، ان کی اولاد کے بارہ قبائل ”الْاَسْبَاطِ“ کہلاتے ہیں۔ ”الْاَسْبَاطِ“ پر الف لام کی وجہ سے ”اس کی اولاد“ اور ”وَنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ“ میں ”لَهٗ“ پہلے آنے کی وجہ سے ”ہم اسی کے فرماں بردار ہیں“ ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس آیت میں مسلمانوں کو اصل ہدایت اور ایمان کی تعلیم دی گئی ہے، یعنی قرآن پاک سے پہلے جتنی آسمانی کتابیں اور جتنے انبیاء و رسل آئے، جن میں سے بعض کے نام قرآن مجید میں آئے ہیں اور بعض کے نہیں آئے، سب پر مجملاً ایمان لایا جائے کہ وہ سب حق ہیں۔ ان کے درمیان فرق کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو مان لیا کسی کو نہ مانا، جیسے یہودیوں نے عیسیٰ ؑ اور محمد ﷺ کو اور نصرانیوں نے آخری پیغمبر ﷺ کو ماننے سے انکار کردیا۔ البتہ تفصیلی ایمان صرف قرآن پر ضروری ہے، یعنی اس کے ہر حکم کو ماننا اور اس پر عمل کرنا، کیونکہ 1 قرآن پاک آنے سے پہلی تمام کتابیں منسوخ ہوگئیں۔ 2 پہلے تمام پیغمبر خصوصاً اپنی قوم کی طرف آتے تھے، جب کہ رسول اللہ ﷺ قیامت تک کے تمام لوگوں کی طرف بھیجے گئے۔ دیکھیے سورة سبا (28)۔ 3 پھر پہلی کوئی آسمانی کتاب محفوظ نہیں رہی، بلکہ ان میں تحریف ہوگئی، جب کہ قرآن مجید ہر طرح سے محفوظ ہے۔ ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ اہل کتاب تورات عبرانی میں پڑھتے، پھر اہل اسلام کے لیے عربی میں اس کی تفسیر کرتے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اہل کتاب کو نہ سچا کہو اور نہ انھیں جھوٹا کہو، بلکہ یوں کہو : (اٰمَنَّا باللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا) [ البقرۃ : 136 ] [ بخاری، التفسیر، باب (قولوا اٰمنا باللہ۔۔) : 4485 ]
Top