Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 214
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ١ؕ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰى یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ١ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ
اَمْ : کیا حَسِبْتُمْ : تم خیال کرتے ہو اَنْ : کہ تَدْخُلُوا : تم داخل ہوجاؤگے الْجَنَّةَ : جنت وَلَمَّا : اور جبکہ نہیں يَاْتِكُمْ : آئی تم پر مَّثَلُ : جیسے الَّذِيْنَ : جو خَلَوْا : گزرے مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے مَسَّتْهُمُ : پہنچی انہیں الْبَاْسَآءُ : سختی وَالضَّرَّآءُ : اور تکلیف وَزُلْزِلُوْا : اور وہ ہلادئیے گئے حَتّٰى : یہانتک يَقُوْلَ : کہنے لگے الرَّسُوْلُ : رسول وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے مَعَهٗ : ان کے ساتھ مَتٰى : کب نَصْرُ اللّٰهِ : اللہ کی مدد اَلَآ : آگاہ رہو اِنَّ : بیشک نَصْرَ : مدد اللّٰهِ : اللہ قَرِيْبٌ : قریب
یا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے، حالانکہ ابھی تک تم پر ان لوگوں جیسی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، انھیں تنگدستی اور تکلیف پہنچی اور وہ سخت ہلائے گئے، یہاں تک کہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، کہہ اٹھے اللہ کی مدد کب ہوگی ؟ سن لو بیشک اللہ کی مدد قریب ہے۔
الْبَاْسَاۗءُ“ سے مراد فقر و فاقہ اور ”وَالضَّرَّاۗءُ“ سے مراد بیماری اور جسمانی تکالیف اور ”زُلْزِلُوْا“ کا مطلب ہے سخت ہلائے گئے۔ مدینہ میں ہجرت کے بعد مسلمانوں کو جب مشرکین، منافقین اور یہود سے سخت تکالیف پہنچیں تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اس میں مسلمانوں کو تسلی دی گئی کہ دین کی راہ میں یہ مصیبتیں اور تکلیفیں صرف تم پر نہیں آ رہیں، بلکہ تم سے پہلے لوگ تو فقر و فاقہ، جانی و مالی نقصان اور سخت قسم کے خوف و ہراس میں مبتلا کیے گئے، یہاں تک کہ اس زمانے کا رسول اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے ”اللہ کی مدد کب ہوگی“ پکار اٹھے۔ پھر جس طرح ان پر اللہ کی طرف سے مدد نازل ہوئی تمہاری بھی مدد کی جائے گی۔ چناچہ جب غزوۂ احزاب میں یہ مرحلہ پیش آیا، جس کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے سورة احزاب (10، 12) میں کھینچا ہے تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ یاد رہے کہ ان کا ”اللہ کی مدد کب ہوگی“ کہنا اعتراض اور شکوہ کے طور پر نہ تھا، بلکہ بےبسی کے عالم میں اپنی عاجزی اور زاری کی حالت کا اظہار تھا۔ (رازی، ابن کثیر) خباب بن ارت ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا : ”یا رسول اللہ ! آپ ہمارے لیے نصرت کی درخواست نہیں کرتے، آپ ہمارے لیے اللہ سے دعا نہیں کرتے ؟“ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ”پہلے لوگوں میں سے ایک کے سر کی مانگ پر آرا رکھ دیا جاتا اور وہ اس کے قدموں تک پہنچ جاتا، مگر یہ چیز اسے اس کے دین سے نہیں پھیرتی تھی اور لوہے کی کنگھیوں سے اس کے گوشت اور ہڈی کو الگ کردیا جاتا، یہ چیز اسے اس کے دین سے نہیں پھیرتی تھی۔“ پھر آپ نے فرمایا : ”اللہ کی قسم ! یہ کام ضرور مکمل ہو کر رہے گا، یہاں تک کہ سوار صنعاء سے حضر موت تک چلے گا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہوگا یا اسے اپنی بکریوں سے متعلق بھیڑیے کا (خوف ہوگا) ، لیکن تم ایسے لوگ ہو کہ بہت جلدی کرتے ہو۔“ [ شعب الإیمان للبیہقی : 2؍240، ح : 1633۔ بخاری : 3612۔ ابن کثیر : 1؍251 ]
Top