Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 238
حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى١ۗ وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ
حٰفِظُوْا : تم حفاظت کرو عَلَي الصَّلَوٰتِ : نمازوں کی وَ : اور الصَّلٰوةِ : نماز الْوُسْطٰى : درمیانی وَ : اور قُوْمُوْا : کھڑے رہو لِلّٰهِ : اللہ کے لیے قٰنِتِيْنَ : فرمانبردار (جمع)
سب نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی اور اللہ کے لیے فرماں بردار ہو کر کھڑے رہو۔
(حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى): شاہ عبدالقادر ؓ فرماتے ہیں : ”درمیانی نماز عصر ہے کہ دن اور رات کے درمیان میں ہے اور اس کی پابندی پر زیادہ زور دیا اور طلاق کے حکموں میں نماز کا ذکر فرما دیا کہ دنیا کے معاملات میں غرق ہو کر عبادت کو نہ بھول جاؤ۔ عصر کی پابندی کا حکم اس لیے زیادہ ہے کہ اس وقت دنیا کا شغل زیادہ ہوتا ہے۔“ (موضح) حفاظت سے مراد وقت کا خیال رکھنا ہے۔ عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : ”تمام اعمال میں سے اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل محبوب ہے ؟“ آپ نے فرمایا : ”نماز اپنے وقت پر ادا کرنا۔“ [ بخاری، الصلاۃ، باب فضل الصلوۃ لوقتہا : 527 ] وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطی : اس کے متعلق گو اختلاف ہے مگر جمہور علماء کے نزدیک اس سے عصر کی نماز مراد ہے۔ یہی صحیح اور راجح ہے، متعدد احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ بخاری، مسلم اور سنن کی کتابوں میں متعدد صحابہ سے یہ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ احزاب کے موقع پر فرمایا : (شَغَلُوْنَا عَنِ الصَّلاَۃِ الْوُسْطٰی صَلاَۃِ الْعَصْرِ مَلَأَ اللّٰہُ بُیُوْتَہُمْ وَ قُبُوْرَہُمْ نَارًا)[ مسلم، المساجد، باب الدلیل لمن۔۔ : 205؍627۔ بخاری : 6396 ] ”انھوں نے ہمیں صلاۃ الوسطی یعنی عصر کی نماز سے روک دیا، اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھرے۔“ بہت سے صحابہ کے آثار سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”جس کی عصر کی نماز فوت ہوگئی گویا اس کا اہل و عیال اور مال لوٹ لیا گیا۔“ [ بخاری، مواقیت الصلوۃ، باب إثم من فاتتہ العصر : 552۔ مسلم : 626 ] قٰنِتِيْنَ : فرماں بردار ہو کر کھڑے رہو، یعنی نماز میں کوئی ایسی حرکت نہ کرو جس سے معلوم ہو کہ آدمی نماز کی حالت میں نہیں ہے، جیسے کھانا پینا اور کسی سے بات کرنا۔ عربی زبان میں قنوت کے کئی معانی آتے ہیں، مگر یہاں مراد سکوت (خاموشی) ہے۔ زید بن ارقم ؓ فرماتے ہیں : ”ہم نماز میں ایک دوسرے سے بات کرلیا کرتے تھے، کوئی بھی شخص اپنے دوسرے بھائی سے (جو نماز میں ہوتا) اپنی کسی ضرورت کے لیے بات کرلیا کرتا تھا، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی : حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى ۤ وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِيْنَ) تو ہمیں (نماز میں) خاموش رہنے کا حکم دے دیا گیا اور باتیں کرنے سے منع کردیا گیا۔“ [ بخاری، التفسیر، باب (و قوموا للہ۔۔) : 4534۔ مسلم، المساجد، باب تحریم الکلام۔۔ : 539 ]
Top