Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 40
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ١ۚ وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
يَا بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : اے اولاد یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تمہیں وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِعَهْدِیْ : میرا وعدہ أُوْفِ : میں پورا کروں گا بِعَهْدِكُمْ : تمہارا وعدہ وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : ڈرو
اے بنی اسرائیل ! میری نعمت یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور تم میرا عہد پورا کرو، میں تمہارا عہد پورا کروں گا اور صرف مجھی سے پس ڈرو۔
اس سے پہلے ”يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ“ کے ساتھ تمام لوگوں کو دعوت تھی، اب بنی اسرائیل کو خصوصی خطاب ہے، کیونکہ اہل کتاب ہونے کی وجہ سے ان کا زیادہ حق ہے کہ وہ نبی ﷺ پر ایمان لائیں۔ یہ خطاب کبھی انعامات یاد دلا کر ہے جو ان پر کیے گئے، کبھی ان کی بد اعمالیوں پر ڈانٹ کے ساتھ ہے اور کبھی ان سزاؤں کے ذکر کے ساتھ ہے جو ان کی نافرمانیوں پر انھیں دی گئیں۔ یہاں سے لے کر آیت ایک سو سینتالیس تک ان پر دس انعامات، ان کی دس بد اعمالیوں اور انھیں دی جانے والی دس سزاؤں کا ذکر ہے۔ (التسہیل) اسرائیل یعقوب ؑ کا دوسرا نام یا لقب ہے، جس کے معنی ہیں اللہ کا بندہ۔ اس لیے ان کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔ بنی اسرائیل میں پہلے پیغمبر یوسف ؑ اور آخری پیغمبر عیسیٰ ؑ ہیں۔ (قرطبی) رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے بنی اسرائیل کو یہ چیزیں یاد دلائی گئیں، حالانکہ یہ سب کچھ پہلے بنی اسرائیل پر گزرا تھا، کیونکہ ان کے بزرگوں پر انعام ان پر بھی انعام تھا اور وہ اب بھی اپنے بزرگوں کی بد عادتوں میں ان کے نقش قدم پر چل رہے تھے۔ گزشتہ بنی اسرائیل کے ساتھ ساتھ آپ کے زمانے میں موجود بنی اسرائیل کے اعمال بد کا بھی ذکر فرمایا، مثلاً رسول اللہ ﷺ کو پہچاننے کے باوجود کفر، کتاب اللہ کی تحریف، جبریل ؑ سے عداوت، جادو کرنا، ایک دوسرے کو قتل کرنا وغیرہ۔ بنی اسرائیل کے احوال اتنی تفصیل سے ذکر فرمانے سے یہ بھی مقصود ہے کہ امت محمد ﷺ ان بد اعمالیوں سے بچے اور ان کے نتائج سے ڈرتی رہے۔ نِعْمَتِىَ) اگرچہ یہ لفظ واحد ہے، مگر جنس مراد ہے، جس میں تمام نعمتیں شامل ہیں۔ (وَاَوْفُوْا بِعَهْدِىْٓ) یہاں اس عہد کی تفصیل بیان نہیں فرمائی، سورة مائدہ (12) میں اس عہد کی تفصیل موجود ہے۔ اس کے مطابق ان کا اللہ تعالیٰ سے عہد یہ تھا کہ تم نماز قائم کرو گے اور زکوٰۃ دو گے اور میرے رسولوں پر (جن میں محمد ﷺ بھی شامل ہیں) ایمان لاؤ گے، ان کی مدد کرو گے اور اللہ کو اچھا قرض دو گے اور اللہ کا ان سے عہد یہ تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں گا اور تم سے تمہارے گناہ دور کروں گا اور تمہیں جنتوں میں داخل کروں گا۔ (وَاِيَّاىَ فَارْھَبُوْنِ) کا معنی ”خاص مجھ سے“ ہے۔ ”َ فَارْھَبُوْنِ“ اصل میں ”فَارْہَبُوْنِیْ“ تھا۔ ”یاء“ حذف ہوگئی، اس کا معنی بھی مجھ سے ڈرو ہے۔ خاص مجھ سے کے بعد دوبارہ ”مجھ سے ڈرو“ کی وجہ سے ”خاص مجھی سے ڈرو۔“ ترجمہ کیا گیا ہے، ورنہ خاص کے بعد ”مجھ“ کا لفظ کافی تھی، مجھی کی ضرورت نہ تھی۔
Top