Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 49
وَ اِذْ نَجَّیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْ١ؕ وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ
وَاِذْ : اور جب نَجَّيْنَاكُمْ : ہم نے تمہیں رہائی دی مِنْ : سے آلِ فِرْعَوْنَ : آل فرعون يَسُوْمُوْنَكُمْ : وہ تمہیں دکھ دیتے تھے سُوْءَ : برا الْعَذَابِ : عذاب يُذَبِّحُوْنَ : وہ ذبح کرتے تھے اَبْنَآءَكُمْ : تمہارے بیٹے وَيَسْتَحْيُوْنَ : اور زندہ چھوڑ دیتے تھے نِسَآءَكُمْ : تمہاری عورتیں وَفِیْ ذَٰلِكُمْ : اور اس میں بَلَاءٌ : آزمائش مِنْ : سے رَبِّكُمْ : تمہارا رب عَظِیْمٌ : بڑی
اور جب ہم نے تمہیں فرعون کی قوم سے نجات دی، جو تمہیں برا عذاب دیتے تھے، تمہارے بیٹوں کو بری طرح ذبح کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی۔
یہاں سے بنی اسرائیل پر کیے جانے والے انعامات اور انھیں دی جانے والی فضیلت کی تفصیل شروع ہوتی ہے۔ طبری نے ابن عباس ؓ سے نقل فرمایا ہے کہ فرعون اور اس کے درباریوں نے باہمی مشورہ کیا کہ بنی اسرائیل کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی اولاد میں انبیاء اور بادشاہ پیدا فرمائے گا (سو ان کا بندوبست ہونا چاہیے) ، تو انھوں نے مشورہ سے متفقہ فیصلہ یہ کیا کہ ایسے آدمی مقرر کیے جائیں جن کے پاس چھریاں ہوں، وہ بنی اسرائیل میں چکر لگاتے رہیں، جہاں کوئی نو مولود لڑکا ملے اسے ذبح کردیں، انھوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر جب دیکھا کہ بنی اسرائیل کے بڑی عمر کے لوگ تو طبعی موت سے مر رہے ہیں اور بچے ذبح ہو رہے ہیں، تو انھوں نے کہا اس طرح تو تم بنی اسرائیل کو فنا کر دو گے، پھر جو خدمت اور مشقت تمہاری جگہ وہ کرتے ہیں وہ تمہیں خود کرنا پڑے گی۔ اس لیے ایک سال ان کے بچے ذبح کرو اور ایک سال انھیں رہنے دو۔ چناچہ موسیٰ ؑ کی والدہ ہارون ؑ کے ساتھ اس سال حاملہ ہوئیں جس میں لڑکے ذبح نہیں کیے جاتے تھے، اس لیے انھوں نے انھیں بلا خوف جنم دیا اور آئندہ سال ہوا تو موسیٰ ؑ کے ساتھ امید سے ہوئیں۔ (طبری) غالب گمان یہ ہے کہ ابن عباس ؓ کا یہ قول اسرائیلی روایات سے ہو، مگر ابن عباس ؓ تک اس کی سند ٹھیک ہے اور ہم اسے سچا کہتے ہیں نہ جھوٹا۔ عام طور پر یہاں فرعون کے خواب کا ذکر کیا جاتا ہے کہ اس نے دیکھا کہ بنی اسرائیل کا ایک شخص اس کی سلطنت ختم کرنے کا باعث ہوگا، اس لیے اس نے لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دیا، مگر اس کی کچھ حقیقت نہیں۔ قرین قیاس یہی ہے کہ فرعون نے بنی اسرائیل کی کثرت تعداد کی صورت میں ان کے غلبے سے خائف ہو کر یہ ظلم اختیار کیا تھا۔ آج کل بھی دنیا بھر کے کفار مسلمانوں کی آبادی بڑھنے سے سخت خائف ہیں اور لالچ اور دھمکی، ہر طریقے سے ان کی آبادی روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 3 یہ واقعہ عاشورا (دس محرم) کے دن پیش آیا۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ مدینے میں تشریف لائے تو یہود کو دیکھا کہ عاشورا کا روزہ رکھتے ہیں، آپ نے پوچھا : ”یہ کیا ہے ؟“ انھوں نے کہا، یہ ایک عظیم دن ہے، اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تو موسیٰ ؑ نے اس کا روزہ رکھا۔ آپ نے فرمایا : ”میں تم سے زیادہ موسیٰ ؑ پر حق رکھتا ہوں۔“ چناچہ آپ نے اس دن کا روزہ رکھا اور اس کے روزے کا حکم دیا۔ [ بخاری، الصوم، باب صوم یوم عاشوراء : 2004 ] پھر رمضان کے روزے فرض ہونے پر عاشورا کا روزہ نفل قرار دے دیا گیا۔ وفات سے پہلے آپ نے فرمایا : ”آئندہ سال میں زندہ رہا تو نو (محرم) کا روزہ رکھوں گا۔“ مگر آپ اس سے پہلے فوت ہوگئے۔ [ مسلم، الصیام، باب أی یوم یصام فی عاشوراء : 1134 ] (يُذَبِّحُوْنَ) باب تفعیل کی وجہ سے ”بری طرح ذبح کرتے تھے“ ترجمہ کیا گیا ہے۔ بَلَاۗءٌ) امتحان اور آزمائش، خواہ مصیبت کے ساتھ ہو یا انعام کے ساتھ۔ وَفِىْ ذٰلِكُمْ“ میں یہ اشارہ ذبح کی طرف بھی ہوسکتا ہے اور نجات کی طرف بھی۔ ذبح کیا جانا مصیبت تھی اور نجات انعام۔
Top