Al-Quran-al-Kareem - Al-Anbiyaa : 32
وَ جَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا١ۖۚ وَّ هُمْ عَنْ اٰیٰتِهَا مُعْرِضُوْنَ
وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا السَّمَآءَ : آسمان سَقْفًا : ایک چھت مَّحْفُوْظًا : محفوظ وَّهُمْ : اور وہ عَنْ : سے اٰيٰتِهَا : اس کی نشانیاں مُعْرِضُوْنَ : روگردانی کرتے ہیں
اور ہم نے آسمان کو محفوظ چھت بنایا اور وہ اس کی نشانیوں سے منہ پھیرنے والے ہیں۔
وَجَعَلْنَا السَّمَاۗءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا : زمین کے چند عجائب کے ذکر کے بعد آسمان کے عجائب کی طرف متوجہ فرمایا۔ لوگوں کی بنائی ہوئی چھوٹی سی چھتیں بھی دیواروں یا ستونوں کے بغیر قائم نہیں رہ سکتیں اور پھر ان میں ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ان سے گرنے والی چیزیں کسی نہ کسی نقصان کا باعث بنتی ہیں، وہ جتنی دیر بھی رہیں آخر گر پڑتی ہیں۔ چور ان میں نقب لگا کر مال و متاع چرا کرلے جاتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے آسمان کو زمین کے لیے ایسی چھت بنایا جو ستونوں کے بغیر قائم ہے۔ دیکھیے سورة رعد (2) اور لقمان (10) اور گرنے سے ہر طرح سے محفوظ ہے۔ دیکھیے سورة فاطر (41) اور سورة حج (65) اس سے کوئی نقصان دہ چیز نیچے آنے کے بجائے زندگی کو قائم رکھنے والی چیزیں، مثلاً سورج کی تیز روشنی (ضیا) اور حرارت، چاند اور ستاروں کا نور، رات دن کا آنا جانا، بادل، بارش، ہوائیں، فرشتے اور اللہ تعالیٰ کی بیشمار نظر نہ آنے والی رحمتیں اترتی ہیں۔ پھر نقب تو بہت دور، راز چرانے کی کوشش کرنے والے شیاطین سے بھی شہاب ثاقب کے ذریعے سے اس کی حفاظت کا زبردست انتظام کیا گیا ہے۔ دیکھیے سورة حجر (16 تا 18) اور صافات (6 تا 10)۔ وَّهُمْ عَنْ اٰيٰـتِهَا مُعْرِضُوْنَ : یعنی مشرک لوگ آسمان اور اس میں پائی جانے والی نشانیوں کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے، مثلاً سورج، چاند، ستارے، رات، دن، بارش، بادل، بجلی، ہوائیں اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بیشمار چیزیں۔ کیونکہ اگر وہ عبرت کی نظر سے ان تمام چیزوں کو دیکھیں تو یقین کرلیں کہ ان کا بنانے والا موجود ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔
Top