Al-Quran-al-Kareem - Al-Anbiyaa : 39
لَوْ یَعْلَمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا حِیْنَ لَا یَكُفُّوْنَ عَنْ وُّجُوْهِهِمُ النَّارَ وَ لَا عَنْ ظُهُوْرِهِمْ وَ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ
لَوْ يَعْلَمُ : کاش وہ جان لیتے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا (کافر) حِيْنَ : وہ گھڑی لَا يَكُفُّوْنَ : وہ نہ روک سکیں گے عَنْ : سے وُّجُوْهِهِمُ : اپنے چہرے النَّارَ : آگ وَلَا : اور نہ عَنْ : سے ظُهُوْرِهِمْ : انکی پیٹھ (جمع) وَ : اور لَا هُمْ : نہ وہ يُنْصَرُوْنَ : مدد کیے جائیں گے
کاش ! وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، اس وقت کو جان لیں جب وہ نہ اپنے چہروں سے آگ کو روک سکیں گے اور نہ اپنی پیٹھوں سے اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔
لَوْ يَعْلَمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا۔۔ : یعنی ان لوگوں کے عذاب کو جھٹلانے اور اسے ناممکن سمجھنے کی اصل وجہ ان کا جہل ہے، انھیں اس وقت کا علم ہی نہیں جب آگ انھیں چاروں طرف سے گھیر لے گی۔ یہ نہ اپنے چہروں سے آگ کو روک سکیں گے، جو ان کے جسم کا سب سے اہم اور خوبصورت حصہ ہے اور نہ پشتوں سے، جو جسم کا سب سے مضبوط حصہ ہے۔ جب ان اعضا کو آگ سے نہ بچا سکے تو دوسرے اعضا کو کیسے بچائیں گے ؟ کفار کو آگ کے چاروں طرف سے گھیرنے کا ذکر کئی جگہ آیا ہے۔ دیکھیے سورة کہف (29) ، اعراف (41) ، زمر (16) ، ابراہیم (50) ، مومنون (104) اور دوسری آیات۔ ”لو“ کی دو تفسیریں ہیں، ایک یہ کہ یہ حرف شرط ہے اور اس کی جزا محذوف ہے، جو خودبخود سمجھ میں آرہی ہے، یعنی اگر کافر لوگ اس وقت کو جان لیں تو نہ کبھی اسے جلدی طلب کریں، نہ اس کا مذاق اڑائیں اور نہ اس کا انکار کریں۔ دوسری تفسیر یہ کہ یہ حرف تمنی ہے، یعنی ”کاش کہ کافر لوگ اس وقت کو جان لیں“ اس صورت میں جزا کی ضرورت نہیں۔ وَلَا هُمْ يُنْــصَرُوْنَ : کوئی ان کی مدد کو نہیں آئے گا اور نہ وہ اپنی یا ایک دوسرے کی مدد کرسکیں گے۔ دیکھیے سورة طارق (10) ، صافات (25، 26) اور شعراء (92 تا 95)۔
Top