Al-Quran-al-Kareem - Al-Anbiyaa : 61
قَالُوْا فَاْتُوْا بِهٖ عَلٰۤى اَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَشْهَدُوْنَ
قَالُوْا : وہ بولے فَاْتُوْا : ہم نے سنا ہے بِهٖ : اسے عَلٰٓي : سامنے اَعْيُنِ : آنکھیں النَّاسِ : لوگ لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَشْهَدُوْنَ : وہ دیکھیں
انھوں نے کہا پھر اسے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے لاؤ، تاکہ وہ گواہ ہوجائیں۔
قَالُوْا فَاْتُوْا بِهٖ عَلٰٓي اَعْيُنِ النَّاسِ : کہنے لگے، اگر ایسا ہے تو اسے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے لاؤ۔ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُوْنَ : اس کے دو معنی ہیں، ایک تو یہ کہ اسے لوگوں کے سامنے لاؤ، تاکہ وہ گواہ ہوجائیں کہ یہی شخص ہے جو بتوں کی برائی بیان کرتا تھا اور ان کا بندوبست کرنے کی قسمیں اٹھاتا تھا اور اس کا مجرم ہونا ثابت ہوجائے کہ یہ کام بھی اسی کا ہے اور ہوسکتا ہے کہ کوئی موقع کا گواہ بھی مل جائے، جس نے اسے بت توڑتے ہوئے دیکھا ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ مشرک ہونے کے باوجود وہ لوگ ملزم پر جرم ثابت کرنا ضروری سمجھتے تھے، جو ان کے نزدیک جرم تھا۔ بقاعی ؓ لکھتے ہیں : ”اب اللہ تعالیٰ کی جناب ہی میں ان لوگوں کی شکایت ہے جو (مسلمان ہو کر) اپنے دین کے اکابر کو بغیر کسی دلیل یا تہمت کے پکڑ کر بند کردیتے ہیں (نہ فرد جرم، نہ کوئی گواہ اور نہ کوئی اور ثبوت، بلکہ اکثر اوقات انھیں بےگناہی کے جرم میں پکڑ لیتے ہیں)۔“ دوسرا معنی یہ ہے کہ اسے لوگوں کے سامنے لاؤ، تاکہ وہ گواہ ہوجائیں اور آنکھوں سے دیکھ لیں کہ اس کے ساتھ کیسا عبرتناک سلوک کیا جاتا ہے، تاکہ آئندہ کسی کو ایسی حرکت کی جرأت نہ ہو۔ وہ تو ابراہیم ؑ کو مجرم ثابت کرنے کے لیے لوگوں کو اکٹھا کر رہے تھے مگر درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابراہیم ؑ کی دلی تمنا پوری ہونے کا سامان ہو رہا تھا کہ کسی طرح سب لوگ جمع ہوں تو وہ ان کے سامنے بتوں کی بےبسی اور مشرکوں کی بےعقلی واضح کریں، جیسا کہ موسیٰ ؑ کے لیے عید کے دن دوپہر کے وقت تمام لوگوں کو کھلے میدان میں جمع کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (58، 59)۔
Top