Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Quran-al-Kareem - Al-Anbiyaa : 62
قَالُوْۤا ءَاَنْتَ فَعَلْتَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَا یٰۤاِبْرٰهِیْمُؕ
قَالُوْٓا
: انہوں نے کہا
ءَاَنْتَ
: کیا تو
فَعَلْتَ
: تونے کیا
ھٰذَا
: یہ
بِاٰلِهَتِنَا
: ہمارے معبودوں کے ساتھ
يٰٓاِبْرٰهِيْمُ
: اے ابراہیم
انھوں نے کہا کیا تو نے ہی ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کیا ہے اے ابراہیم ! ؟
قَالُوْٓا ءَاَنْتَ فَعَلْتَ ھٰذَا۔۔ : لوگوں کے سوال کے جواب میں کہ اے ابراہیم ! کیا تو نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کام کیا ہے ؟ ابراہیم ؑ نے ان کے بتوں کی بےبسی و بےچارگی واضح کرنے کے لیے شدید طنز کرتے ہوئے فرمایا : ”بلکہ یہ کام ان کے اس بڑے نے کیا ہے، سو ان سے پوچھ لو اگر وہ بولتے ہیں۔“ مراد خود ان کے منہ سے اس بات کا اقرار کروانا تھا کہ بت نفع یا نقصان تو دور کی بات ہے بول کر بتا بھی نہیں سکتے کہ ان کا یہ حال زار کون کر گیا ہے۔ ”فَسْـَٔــلُوْهُمْ“ (سو ان سے پوچھ لو) یعنی صحیح سالم رہنے والے ان کے اس بڑے سے پوچھو کہ اس نے بت کیوں توڑے اور اگر کسی اور نے توڑے ہیں تو اس نے اپنے ساتھیوں کا دفاع کیوں نہیں کیا ؟ اور ٹوٹے ہوئے خداؤں سے بھی پوچھو کہ کس نے ان کا یہ حال کیا اور یہ بھی کہ وہ خود یا ان کا بڑا ان کا دفاع کیوں نہیں کرسکے ؟ ان کے ایک بڑے بت کو سالم چھوڑنے میں یہ اشارہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بڑا اپنے ساتھ کسی بڑے یا چھوٹے مدمقابل کو برداشت نہیں کرتا تو رب تعالیٰ جس کی صفت ہی ”اللہ اکبر“ ہے، اپنے ساتھ کسی شریک کو کیسے برداشت کرسکتا ہے ؟ 3 ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (لَمْ یَکْذِبْ إِبْرَاھِیْمُ عَلَیْہِ الصَّلاَۃُ وَالسَّلاَمُ إِلاَّ ثَلاَثَ کَذَبَاتٍ : ثِنْتَیْنِ مِنْھُنَّ فِيْ ذَات اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ، قَوْلُہُ : (اِنِّىْ سَقِيْمٌ) [ الصافات : 89] وَ قَوْلُ : (بَلْ فَعَلَه ٗٗ ڰ كَبِيْرُهُمْ ھٰذَا) [ الأنبیاء : 63] وَقَالَ بَیْنَا ھُوَ ذَاتَ یَوْمٍ وَسَارَۃُ إِذْ أَتَی عَلٰی جَبَّارٍ مِنَ الْجَبَابِرَۃِ ، فَقِیْلَ لَہُ إِنَّ ہَاہُنَا رَجُلاً مَعَہُ امْرَأَۃٌ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ فَأَرْسَلَ إِلَیْہِ فَسَأَلَہُ عَنْھَا فَقَالَ مَنْ ھٰذِہِ ؟ قَالَ أُخْتِيِْ فَأَتَی سَارَۃَ فَقَالَ یَا سَارَۃُ ! لَیْسَ عَلَی وَجْہِ الْأَرْضِ مُؤْمِنٌ غَیْرِيْ وَ غَیْرُکِ ، وَإِنَّ ھٰذَا سَأَلَنِيْ عَنْکِ فَأَخْبَرْتُہُ أَنَّکِ أُخْتِيْ فَلاَ تُکَذِّبِیْنِيْ) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : (واتخذ اللہ إبراہیم خلیلا) : 3358۔ مسلم : 2371 ] ”ابراہیم ؑ نے تین دفعہ کے سوا کبھی جھوٹ نہیں کہا، جن میں سے دو اللہ تعالیٰ کی ذات کی خاطر تھے۔ ان کا کہنا : (اِنِّىْ سَقِيْمٌ) [ الصافات : 89] ”میں بیمار ہوں“ اور ان کا یہ کہنا : (بَلْ فَعَلَه ٗٗ ڰ كَبِيْرُهُمْ ھٰذَا) [ الأنبیاء : 63 ] ”بلکہ اسے ان کے اس بڑے نے کیا ہے۔“ اور آپ ﷺ نے فرمایا : ”اور ایک دفعہ وہ اور (ان کی بیوی) سارہ سفر کر رہے تھے کہ وہ جابر لوگوں میں سے ایک جابر (کی بستی) کے پاس آئے۔ اسے بتایا گیا کہ یہاں ایک آدمی ہے جس کے ساتھ ایک عورت ہے جو حسین ترین لوگوں سے ہے۔ اس نے ان کی طرف پیغام بھیجا اور اس کے متعلق پوچھا اور کہا : ”وہ کون ہے ؟“ کہا : ”وہ میری بہن ہے۔“ پھر سارہ کے پاس آئے تو کہا، اے سارہ ! اس سرزمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن نہیں اور اس نے مجھ سے پوچھا تو میں نے اسے بتایا ہے کہ تو میری بہن ہے، سو مجھے مت جھٹلانا۔“ بعض لوگوں نے اس حدیث میں ابراہیم ؑ کے تین جھوٹوں کے ذکر کی وجہ سے اس حدیث کا انکار ہی کردیا کہ ایک صدیق نبی جھوٹ کیسے بول سکتا ہے ؟ ایک روشن خیال بزرگ نے تو امام بخاری اور تمام ائمۂ حدیث کے ساتھ اس حدیث کو صحیح کہنے والے حضرات کے متعلق یہاں تک لکھ دیا ہے : ”ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کرکے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اسے بخاری و مسلم کے چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اور اس بات کی پروا نہیں کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ کا الزام عائد ہوتا ہے۔“ ان بزرگوں نے یہ سوچا ہی نہیں کہ اس حدیث کے روایت کرنے والے ائمہ کرام یعنی بخاری، عمرو بن حفص، ان کے والد، سلیمان الاعمش، ابراہیم نخعی، علقمہ اور عبداللہ بن مسعود ؓ کی صداقت کو عزیز نہ رکھنے کا نتیجہ کیا ہوگا ؟ جب ان کی صداقت ہی عزیر نہ رہی تو امت کے اتفاق کے ساتھ ”أَصَحُّ الْکُتُبِ بَعْدَ کِتَاب اللّٰہِ“ اور دوسری کتب حدیث کی کیا حیثیت رہ جائے گی اور امت کے پاس باقی کیا رہ جائے گا ؟ لطف یہ کہ ان بزرگوں نے ائمۂ حدیث کے صدق پر یہ مہربانی بزعم خود منکرین حدیث کے فتنے کے سد باب کے لیے فرمائی ہے۔ بھلا اس کرم فرمائی کے بعد منکرین حدیث کو کسی مزید محنت کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے ؟ ایک بزرگ نے یہ تک کہہ دیا کہ ”نبی کو جھوٹا کہنے سے بہتر ہے کہ اس حدیث کے راویوں کو جھوٹا کہہ دیا جائے۔“ سبحان اللہ ! ابراہیم ؑ کو جھوٹا کس نے کہا ہے ؟ اور آپ حضرات کی دلیری کا کیا کہنا کہ جن راویوں کو پوری امت بالاتفاق سچا قرار دیتی ہے آپ انھیں جھوٹا قرار دے رہے ہیں۔ مجھے تعجب ہوتا ہے کہ اچھے خاصے ذہین حضرات صحیح حدیث اور ائمۂ حدیث پر اتنی جرأت کرتے ہوئے یہ بات نہ سمجھ سکے کہ اس حدیث میں ابراہیم ؑ کو جھوٹا نہیں کہا گیا بلکہ اعلیٰ درجے کا سچا (صدیق) ثابت کیا گیا ہے۔ کیونکہ جس شخص نے پوری زندگی میں ان تین باتوں کے سوا کوئی جھوٹ نہ بولا ہو، جو حقیقت میں جھوٹ ہیں ہی نہیں، بلکہ صرف ظاہر میں جھوٹ ہیں، وہ کس قدر سچا ہوگا۔ بلاغت میں اسے ”تَأْکِیْدُ الْمَدْحِ بِمَا یَشْبَہُ الذَّمَّ“ کہا جاتا ہے، یعنی ایسی تعریف جو بظاہر مذمت ہو، جیسا کہ ایک شاعر نے کہا ہے : وَلَا عَیْبَ فِیْھِمْ غَیْرَ أَنَّ سُیُوْفَھُمْ بِھِنَّ فُلُوْلٌ مِنْ قِرَاعِ الْکِتَاءِبِ ”یعنی ان میں اس کے سوا کوئی عیب نہیں کہ ان کی تلواروں میں لشکروں کو کھٹکھٹانے کی وجہ سے دندانے پڑے ہوئے ہیں۔“ ظاہر ہے کہ دشمنوں کے مقابلے کی وجہ سے تلواروں میں دندانے پڑجانا کوئی عیب نہیں، تو جن کا عیب یہ ہے ان کی خوبیوں کا حال کیا ہوگا۔ اب آپ ان تینوں واقعات پر غور کریں۔ وہ لوگ ابراہیم ؑ سے پوچھتے ہیں کہ اے ابراہیم ! کیا ہمارے معبودوں کے ساتھ تو نے یہ کام کیا ہے ؟ وہ کہتے ہیں، بلکہ ان کے اس بڑے نے یہ کام کیا ہے۔ ”بلکہ“ کا معنی یہی ہے کہ میں نے نہیں کیا، حالانکہ ابراہیم کو خوب معلوم تھا کہ انھوں نے ہی یہ کام کیا ہے۔ یہ بظاہر صاف جھوٹ ہے مگر حقیقت میں یہ ایک تدبیر تھی جس کے ذریعے سے وہ ان کے منہ سے اقرار کروانا چاہتے تھے کہ بت بول نہیں سکتے، نفع نقصان کا مالک ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مشرکین بھی ابراہیم ؑ کے مقصد کو سمجھ رہے تھے اور ان کے پاس یہ ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ بت بولتے نہیں۔ چناچہ انھوں نے اس کا اقرار کیا۔ اب جس شخص کا جھوٹ دشمنوں کے مونہوں سے کائنات کی سب سے بڑی حقیقت کا اقرار کروا لے کہ اللہ کے سوا کسی کے اختیار میں کچھ نہیں، اس شخص کے صدیق ہونے میں کیا شبہ رہ جاتا ہے۔ اسی طرح فرمایا : (اِنِّىْ سَقِيْمٌ) [ الصافات : 89 ] کہ میں بیمار ہوں، وہ سمجھے کہ اتنے بیمار ہیں کہ ساتھ نہیں جاسکتے، حالانکہ جو شخص اتنا بیمار ہو وہ پتھروں وغیرہ کے اتنے مجسموں کا ستیا ناس کیسے کرسکتا ہے ؟ ابراہیم ؑ کے ذہن میں کفر و شرک سے نفرت کی وجہ سے پیدا ہونے والی تکلیف یا کوئی بیماری تھی، اسے عربی زبان میں تعریض کہتے ہیں کہ کہنے والا اپنے الفاظ سے کچھ مراد لے اور سننے والے کچھ اور سمجھیں۔ سننے والوں کے لحاظ سے واقعہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے اس پر کذب کا لفظ بولا جاتا ہے، مگر یہ حقیقت میں جھوٹ نہیں ہوتا، بلکہ جھوٹ سے بچنے کا ایک طریقہ ہے، جیسا کہ عمران بن حصین ؓ نے فرمایا : (إِنَّ فِي الْمَعَارِیْضِ لَمَنْدُوْحَۃٌ عَنِ الْکَذِبِ) [ الأدب المفرد : 857 ] ”بیشک معاریض میں کذب سے بچنے کی گنجائش ہے۔“ اسی طرح سارہ [ کو بہن کہنا بظاہر واقعہ کے خلاف تھا مگر انھیں بہن کہتے وقت اپنی مراد ابراہیم ؑ نے خود بیان فرما دی جو بالکل درست ہے۔ ان دونوں واقعوں میں ابراہیم ؑ نے تعریض سے کام لیا ہے۔ غور کیجیے وہ حدیث جس میں مذکور ہے کہ ابراہیم ؑ نے ساری زندگی میں ان تین کے سوا کوئی جھوٹ نہیں بولا، ابراہیم ؑ کو سچا ثابت کر رہی ہے یا جھوٹا ؟ چلیں مان ہی لیں کہ اس حدیث میں ابراہیم ؑ کا تین دفعہ جھوٹ بولنا واقعی بیان ہوا ہے، پھر بھی اس میں ابراہیم ؑ پر کوئی گناہ لازم نہیں آتا اور نہ ان کا جھوٹا ہونا لازم آتا ہے، کیونکہ وہ حالت جنگ میں تھے اور جنگ میں جھوٹ بولنا جائز ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ) [ بخاري، الجھاد والسیر، باب الحرب خدعۃ : 3029 ] ”جنگ دھوکے کا نام ہے۔“ بتائیے ! اس میں ابراہیم ؑ کے صدق پر کیا حرف آتا ہے ؟ اوپر مذکور بزرگوں نے بڑے زور شور سے یہ بات کہی ہے کہ سند صحیح ہونا کافی نہیں، متن بھی صحیح ہونا ضروری ہے۔ یہ بات فی الواقع درست ہے اور خود محدثین نے اسے حدیث کی صحت کے لیے شرط قرار دیا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ امام بخاری اور دوسرے محدثین کو اس حدیث میں ابراہیم ؑ کی توہین نظر آتی تو وہ کبھی اسے صحیح قرار نہ دیتے۔ افسوس ! ہمارے ان بزرگوں کی طعن تشنیع کا نشانہ محدثین ہی بنتے ہیں، اپنی رائے اور قیاس سے ایک نئی شریعت ایجاد کرلینے والے حضرات کے متعلق ان کے دلوں اور قلموں میں بہت نرم گوشہ ہے۔ [ فَإِلَی اللّٰہِ الْمُشْتَکٰی ] بائبل کے حوالے سے ابراہیم ؑ کی عمر 75 سال اور سارہ کی عمر 65 سال نقل کرکے بھی اس حدیث پر اعتراض کیا گیا ہے کہ اس عمر میں عورت میں کیا حسن باقی رہ جاتا ہے جو شاہ مصر اس پر فریفتہ ہو۔ افسوس ! ہمارے یہ حضرات ائمۂ محدثین پر اس قدر خفا ہیں کہ کتاب اللہ کے بعد سب سے صحیح کتاب کی حدیث انھیں غلط نظر آئی اور وہ کتاب جس میں تحریف کی خود اللہ تعالیٰ نے شہادت دی ہے اور جس کی داخلی شہادتیں اس کے بیشمار جھوٹوں کی نشان دہی کر رہی ہیں، وہ انھیں اس قابل نظر آئی کہ انھوں نے اس کے ساتھ صحیح حدیث رسول ﷺ کو رد کردیا۔ [ إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ] 3 یہاں ایک اشکال باقی رہ جاتا ہے کہ صحیح بخاری میں مذکور حدیث شفاعت میں ہے کہ لوگ جب ابراہیم ؑ کے پاس شفاعت کی درخواست لے کر جائیں گے تو وہ اپنے تین کذبات کا ذکر کرکے شفاعت سے عذر کردیں گے۔ اگر یہ جھوٹ نہیں تو ابراہیم ؑ شفاعت سے معذوری کیوں ظاہر کریں گے ؟ اہل علم نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو جو مرتبہ عطا فرمایا تھا ان کے خیال کے مطابق اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ ان موقعوں پر بھی تعریض کے بجائے صاف کہتے کہ ہاں، میں نے بت توڑے ہیں اور مشرکین کی عید پر جانے سے بیماری کے عذر کے بجائے صاف لفظوں میں انکار کردیتے کہ میں نہیں جاتا۔ اسی طرح جبار مصر کے سامنے صاف کہہ دیتے کہ سارہ میری بیوی ہے، پھر جو آزمائش آتی اس پر صبر کرتے، جس طرح دوسری بہت سی آزمائشوں پر انھوں نے صبر کیا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں امامت کے رتبے پر سرفراز فرمایا۔ اپنے اس عمل کو اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کی بیشمار نعمتوں کے مقابلے میں کمتر سمجھ کر وہ شفاعت سے معذوری ظاہر کریں گے۔ [ أحکام القرآن لابن العربی ] دیکھیے اسی حدیث شفاعت میں ہے کہ عیسیٰ ؑ شفاعت سے یہ کہہ کر عذر کردیں گے کہ لوگوں نے میری پرستش کی، اس لیے مجھے شفاعت کے لیے جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے، حالانکہ اس میں ان کا کوئی قصور نہیں تھا۔
Top