Al-Quran-al-Kareem - Al-Anbiyaa : 69
قُلْنَا یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَۙ
قُلْنَا : ہم نے حکم دیا يٰنَارُكُوْنِيْ : اے آگ تو ہوجا بَرْدًا : ٹھنڈی وَّسَلٰمًا : اور سلامتی عَلٰٓي : پر اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم
ہم نے کہا اے آگ ! تو ابراہیم پر سراسر ٹھنڈک اور سلامتی بن جا۔
قُلْنَا يٰنَارُكُـوْنِيْ بَرْدًا۔ : ”بَرْدًا“ ٹھنڈک، ”وَّسَلٰمًا“ سلامتی۔ مبالغہ کے طور پر مصدر بمعنی اسم فاعل ہے۔ یہاں کچھ عبارت محذوف ہے جو خود بخود سمجھ میں آرہی ہے کہ اپنے فیصلے کے مطابق انھوں نے ابراہیم ؑ کو جلانے کا زبردست انتظام کیا، چناچہ لکڑیاں جمع کرنے کے لیے باقاعدہ ایک چار دیواری بنائی گئی، جیسا کہ فرمایا : (قَالُوا ابْنُوْا لَهٗ بُنْيَانًا فَاَلْقُوْهُ فِي الْجَــحِيْمِ) [ الصافات : 97 ] ”انھوں نے کہا، اس کے لیے ایک عمارت بناؤ، پھر اسے بھڑکتی آگ میں پھینک دو۔“ پھر جب آگ خوب بھڑک اٹھی اور اس کی تپش چاروں طرف پھیل گئی تو انھوں نے منجنیق کے ذریعے سے یا جیسے بھی ہوسکا، ابراہیم ؑ کو اس میں پھینک دیا تو ہم نے حکم دیا کہ اے آگ ! ابراہیم پر سراسر ٹھنڈک ہوجا، مگر تکلیف دینے والی ٹھنڈک نہیں، بلکہ ایسی کہ سراسر سلامتی ہو۔ اگر اللہ تعالیٰ صرف ”بَرْداً“ (سراسر ٹھنڈک) فرماتے تو شدید ٹھنڈک ابراہیم ؑ برداشت نہ کرسکتے، اس لیے آگ کو ٹھنڈک کے ساتھ سلامتی والی بن جانے کا حکم دیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابراہیم ؑ کے لیے معجزہ یعنی فطرت کے عام قوانین کے برعکس معاملہ تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو سمندر پر اپنی لاٹھی مارنے کا حکم دیا تو سمندر پھٹ گیا اور پانی کا ہر حصہ ایک بہت بڑے پہاڑ کی طرح اپنی جگہ کھڑا رہا، فرمایا : (فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيْمِ) [ الشعراء : 63 ] ”پس وہ پھٹ گیا تو ہر ٹکڑا بہت بڑے پہاڑ کی طرح ہوگیا۔“ جب کہ پانی کی فطرت بہنا ہے، ایسے ہی آگ کی فطرت جلانا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے حکم کے بعد وہ ابراہیم ؑ کے لیے گلزار بن گئی۔ اگر کسی کی سمجھ میں یہ بات نہ آتی ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پڑھ لے : (اِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ) [ آل عمران : 47 ] ”جب وہ کسی کام کا فیصلہ کرلیتا ہے تو اس سے یہی کہتا ہے کہ ہوجا، تو وہ ہوجاتا ہے۔“ اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے آگ کو ”کونی“ (ہو جا) سے خطاب فرمایا، پھر آگ کی کیا مجال تھی کہ ٹھنڈی اور سلامتی والی نہ ہوتی۔ (ثنائی) اگر کسی کو پھر بھی اصرار ہے کہ آگ کا کام جلانا ہی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے بھی ٹھنڈی نہیں ہوسکتی تو اسے قرآن مجید پر ایمان کے دعوے کا تکلف نہیں کرنا چاہیے۔ 3 ام شریک ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چھپکلی کو مار دینے کا حکم دیا اور فرمایا : (وَکَانَ یَنْفُخُ عَلٰی إِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ) ”یہ ابراہیم ؑ پر پھونکیں مارتی تھی۔“ [ بخاري، الأنبیاء، باب قولہ تعالیٰ : (واتخذ اللہ إبراہیم خلیلا۔۔) : 3359 ] محدث عبد الرزاق نے اپنی مصنف (8392) میں معمر عن الزہری عن عروہ عن عائشہ ؓ روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : (کَانَتِ الضِّفْدَعُ تُطْفِئُ النَّارَ عَنْ إِبْرَاھِیْمَ وَکَانَ الْوَزَغُ یَنْفُخُ فِیْہِ فَنَھَی عَنْ قَتْلِ ھٰذا وَ أَمَرَ بِقَتْلِ ھٰذَا) ”مینڈک ابراہیم ؑ سے آگ بجھاتے تھے اور چھپکلی اس میں پھونکیں مارتی تھی، سو انھیں قتل کرنے سے منع فرمایا اور اسے قتل کرنے کا حکم دیا۔“ مسند احمد کے محقق نے لکھا ہے کہ یہ سند شیخین کی شرط پر صحیح ہے۔ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ عائشہ ؓ نے فرمایا : (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلْوَزَغِ اَلْفُوَیْسِقُ وَلَمْ أَسْمَعْہٗ أَمَرَ بِقَتْلِہٖ) ”نبی ﷺ نے چھپکلی کو ”فویسق“ (بہت نافرمان) فرمایا اور میں نے آپ ﷺ کو اسے قتل کرنے کا حکم دیتے ہوئے نہیں سنا۔“ اور سعد بن ابی وقاص ؓ کہتے ہیں : (أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِہِ) [ بخاري : 3306 ] ”نبی ﷺ نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عائشہ ؓ نے چھپکلی کو قتل کرنے کی حدیث کسی صحابی کے واسطے سے سنی ہے، اس صورت میں بھی حدیث صحیح ہے، کیونکہ تمام صحابہ روایت حدیث میں معتبر ہیں۔ 3 ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ابراہیم ؑ کا آخری قول، جب انھیں آگ میں پھینکا گیا ”حَسْبِيَ اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ“ تھا، یعنی مجھے اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے۔ [ بخاري، التفسیر، باب : (الذین قال لھم الناس۔۔) : 4564 ] 3 بغوی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ کعب احبار سے روایت کی گئی ہے کہ جب انھوں نے ابراہیم ؑ کو منجنیق میں رکھ کر آگ کی طرف پھینکا تو جبریل ؑ آپ کے سامنے آئے اور کہا : ”ابراہیم ! تمہیں کوئی حاجت ہے ؟“ فرمایا : ”تمہاری طرف تو نہیں۔“ انھوں نے کہا : ”پھر اپنے رب سے سوال کرو۔“ فرمایا : (حَسْبِيْ مِنْ سُؤَالِيْ عِلْمُہُ بِحَالِيْ) ”مجھے میرے سوال کرنے سے اس کا میری حالت کو جاننا ہی کافی ہے۔“ بغوی نے یہ کہہ کر اس کے ضعف کی طرف اشارہ کردیا ہے : ”رُوِیَ عَنْ کَعْبٍ“ کہ کعب سے روایت کی گئی ہے۔ معلوم ہوا کہ اس روایت کا کوئی سر پیر نہیں، اس لیے شیخ البانی ؓ نے فرمایا : ”لَا أَصْلَ لَہُ“ [ سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ : 21 ] اور ابن عراق نے ”تنزیۃ الشریعۃ المرفوعۃ عن الأخبار الشنیعۃ الموضوعۃ“ میں یہ روایت ذکر کرکے فرمایا : ”ابن تیمیہ ؓ نے فرمایا، یہ روایت موضوع ہے۔“ علاوہ ازیں یہ روایت ان آیات و احادیث کے بھی خلاف ہے جن میں دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، فرمایا : (وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ) [ المؤمن : 60 ] ”اور تمہارے رب نے فرمایا، مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ بیشک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔“ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (مَنْ لَمْ یَدْعُ اللّٰہَ یَغْضَبْ عَلَیْہِ) [ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : 6؍153، ح : 2654۔ ترمذی : 3373۔ ابن ماجہ : 3827 ] ”جو اللہ تعالیٰ سے دعا نہ کرے اللہ تعالیٰ اس پر غصے ہوجاتا ہے۔“ کعب احبار والی باطل روایت صحیح بخاری کی اس حدیث کے بھی خلاف ہے جو اوپر گزری کہ ابراہیم ؑ نے آگ میں پھینکے جانے کے وقت آخری الفاظ ”حَسْبِيَ اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ“ کہے تھے۔ قرآن میں ابراہیم ؑ کی بہت سی دعائیں مذکور ہیں، اگر دعا کے بجائے اللہ تعالیٰ کا علم ہی کافی ہو تو اللہ تعالیٰ کو تو ہر شخص کی ہر حالت کا علم ہے، پھر اس سے دعا اور سوال کا معاملہ تو سرے سے ختم ہے، حالانکہ دعا اس لیے نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ کو ہماری حالت کا علم نہیں بلکہ دعا خود ایک عبادت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اَلدُّعَاءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ) [ ترمذی، التفسیر، باب ومن سورة البقرۃ : 2969 ] ”دعا ہی عبادت ہے۔“ اسی حدیث میں ہے کہ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی : (وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ) [ المؤمن : 60 ] ”اور تمہارے رب نے فرمایا مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ بیشک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔“ بعض صوفیاء نے جو اس باطل روایت کو دلیل بنا کر کہا ہے کہ تمہارا اس سے سوال کرنا تمہاری طرف سے اس پر تہمت لگانا ہے، یہ ان کی بہت بڑی گمراہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کو اللہ تعالیٰ پر تہمت لگانا قرار دے رہے ہیں۔ (خلاصہ سلسلہ صحیحہ) شیخ محمد امین شنقیطی ؓ ”اضواء البیان“ میں فرماتے ہیں : ”ابوالعالیہ سے روایت ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ”سلٰماً“ نہ فرماتے تو اس کی سردی ان کے لیے اس کی گرمی سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی اور اگر ”عَلیٰ ابْراھیم“ نہ فرماتے تو اس کی ٹھنڈک ہمیشہ تک باقی رہتی۔ اور سدی سے ہے کہ اس دن جو آگ بھی تھی بجھ گئی۔ اور کعب اور قتادہ سے ہے کہ آگ نے صرف ابراہیم ؑ کو باندھنے والی رسیاں جلائیں۔ اور نہال بن عمرو سے ہے کہ ابراہیم ؑ نے فرمایا : ”میں ان ایام جیسا خوش حال کبھی نہیں رہا جن دنوں میں آگ میں تھا۔“ اور شعیب حمانی سے ہے کہ انھیں آگ میں ڈالا گیا تو ان کی عمر سولہ (16) سال تھی۔ اور ابن جریج سے ہے کہ اس وقت وہ چھبیس (26) برس کے تھے۔ اور کلبی سے ہے کہ جتنی آگیں تھیں سب ٹھنڈی ہوگئیں، چناچہ کسی آگ نے ایک کھری تک نہیں پکائی۔ اور بعض نے قصے میں ذکر کیا ہے کہ نمرود نے اپنے محل میں سے جھانکا تو دیکھا کہ ابراہیم ؑ تخت پر ہیں اور سایوں کا فرشتہ ان کا دل لگا رہا ہے، تو اس نے کہا، تیرا رب بہت اچھا رب ہے، میں اس کے لیے چار ہزار گائیں قربانی کروں گا اور پھر اس نے ابراہیم ؑ کو کچھ نہیں کہا۔“ شیخ شنقیطی ؓ یہ سب کچھ لکھنے کے بعد فرماتے ہیں : ”یہ سب اسرائیلیات ہیں اور مفسرین اس قصے میں اور دوسرے بہت سے قصوں میں ایسی بہت سی باتیں بیان کردیتے ہیں۔“ یہاں تھوڑا سا غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ سب تابعین اور راوی اس وقت تو موجود ہی نہ تھے جب ابراہیم ؑ کو آگ میں پھینکا گیا، نہ ان پر وحی اتری اور نہ وہ درمیان کی کوئی سند بیان کرتے ہیں، پھر انھیں ان باتوں کا پتا کیسے چلا ؟ ظاہر ہے یہ وہی سنی سنائی باتیں ہیں جنھیں تفسیر قرآن میں کسی طرح بھی قبول نہیں کیا جاسکتا۔ مزید دیکھیے اس تفسیر کا مقدمہ۔ 3 یہ واقعہ حق کی طرف دعوت اور اس پر استقامت کا عجیب و غریب واقعہ ہے۔ اس میں ہمارے نبی کریم ﷺ اور پوری امت مسلمہ کے لیے حق کی خاطر جان کی بازی لگا دینے کا سبق ہے اور یہ بھی کہ جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو تمام اسباب ختم ہونے کے باوجود اپنے بندے کا بال بھی بیکا نہیں ہونے دیتا۔
Top