Al-Quran-al-Kareem - Al-Anbiyaa : 7
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ فَسْئَلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنَا : ہم نے قَبْلَكَ : تم سے پہلے اِلَّا : مگر رِجَالًا : مرد نُّوْحِيْٓ : ہم وحی بھیجتے تھے اِلَيْهِمْ : ان کی طرف فَسْئَلُوْٓا : پس پوچھ لو اَهْلَ الذِّكْرِ : یاد رکھنے والے اِنْ : مگر كُنْتُمْ : تم ہو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور ہم نے تجھ سے پہلے نہیں بھیجے مگر کچھ مرد، جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے، پس ذکر والوں سے پوچھ لو، اگر تم نہیں جانتے ہو۔
وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا۔۔ : یہ ”هَلْ ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ“ (یہ تم جیسے ایک بشر کے سوا ہے کیا) کا جواب ہے، یعنی وہ تمام رسول جو آپ سے پہلے آئے، جن کے رسول ہونے کو یہ بھی مانتے ہیں، مثلاً ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق ؑ وغیرہم، وہ سب بشر تھے، جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے۔ تو یہ لوگ آپ کو بشر ہونے کی وجہ سے رسول کیوں نہیں مانتے ؟ دیکھیے سورة انعام (91) سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں : (کَانَ بَشَرًا مِّنَ الْبَشَرِ یَفْلِيْ ثَوْبَہُ وَ یَحْلِبُ شَاتَہُ وَیَخْدِمُ نَفْسَہُ) [ مسند أحمد : 6؍256، ح : 26248۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : 671 ] ”آپ ﷺ انسانوں میں سے ایک انسان تھے، اپنا کپڑا خود ٹٹول لیا کرتے تھے اور اپنی بکری کا دودھ خود دوہ لیتے تھے اور اپنا کام خود کرلیتے تھے۔“ زمین میں اگر فرشتے رہا کرتے تو رسول بھی فرشتہ آتا، اب انسان بستے ہیں تو ان کے لیے نمونہ اور ان کی رہنمائی کرنے والا انسان ہی ہوسکتا ہے۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (94، 95)۔ فَسْــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ۔۔ : اس جملے کی مفصل تفسیر کے لیے دیکھیے سورة نحل (43)۔
Top