Al-Quran-al-Kareem - Al-Anbiyaa : 91
وَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهَا مِنْ رُّوْحِنَا وَ جَعَلْنٰهَا وَ ابْنَهَاۤ اٰیَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
وَالَّتِيْٓ : اور عورت جو اَحْصَنَتْ : اس نے حفاظت کی فَرْجَهَا : اپنی شرمگاہ (عفت کی) فَنَفَخْنَا : پھر ہم نے پھونک دی فِيْهَا : اس میں مِنْ رُّوْحِنَا : اپنی روح سے وَجَعَلْنٰهَا : اور ہم نے اسے بنایا وَابْنَهَآ : اور اس کا بیٹا اٰيَةً : نشانی لِّلْعٰلَمِيْنَ : جہانوں کے لیے
اور اس عورت کو جس نے اپنی شرم گاہ کو محفوظ رکھا، تو ہم نے اس میں اپنی روح سے پھونکا اور اسے اور اس کے بیٹے کو جہانوں کے لیے عظیم نشانی بنادیا۔
وَالَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا : یعنی اس خاتون کا بھی ذکر کر جس پر ناپاک لوگ (یہودی) تہمتیں لگاتے ہیں، حالانکہ اس نے اپنی شرم گاہ کو حرام سے محفوظ رکھا، بلکہ عبادت میں ایسی مشغول رہی کہ حلال سے بھی محفوظ رکھا، جیسا کہ فرمایا : (وَّلَمْ يَمْسَسْنِىْ بَشَرٌ) [ آل عمران : 47 ] ”حالانکہ کسی بشر نے مجھے ہاتھ نہیں لگایا۔“ اللہ تعالیٰ نے اس کی نیک شہرت کے اظہار کے لیے اس کا نام نہیں لیا، کیونکہ سب جانتے ہیں اس سے مراد مریم بنت عمران [ ہیں۔ فَنَفَخْنَا فِيْهَا مِنْ رُّوْحِنَا : مراد عیسیٰ ؑ کی روح ہے جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور اس کے حکم سے جبریل ؑ نے پھونکی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ؑ کو عزت و شرف بخشنے کے لیے اسے اپنی روح قرار دیا اور جبریل ؑ کے پھونکنے کو اپنا پھونکنا قرار دیا، جیسے ”بیت اللہ“ اور ”ناقۃ اللہ“ میں کعبہ کو اپنا گھر اور صالح ؑ کی اونٹنی کو اپنی اونٹنی قرار دیا۔ شیخ ثناء اللہ امر تسری ؓ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں : ”عیسائی لوگ اس آیت اور اس قسم کی اور آیات سے عموماً دلیل لایا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح (معاذ اللہ) خدا تھا، کیونکہ اس کو ”روح اللہ“ کہا گیا ہے، مگر وہ قرآن شریف کے محاورے کو غور سے نہیں دیکھتے کہ اس قسم کی اضافات سے مطلب کیا ہوتا ہے ؟ سورة سجدہ میں عام انسانوں کے لیے بھی یہی اضافت روح کی اللہ کی طرف آئی ہے، چناچہ ارشاد ہے : (وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ ۝ۚثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِيْنٍ ۝ۚثُمَّ سَوّٰىهُ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ) [ السجدۃ : 7 تا 9 ] ”(یعنی اللہ نے) انسان کی پیدائش تھوڑی سی مٹی سے شروع کی، پھر اس کی نسل ایک حقیر پانی کے خلاصے سے بنائی، پھر اسے درست کیا اور اس میں اپنی ایک روح پھونکی۔“ اس جگہ عام انسانی پیدائش کی ابتدا اور سلسلے کا ذکر ہے۔ پس اگر آیت زیر تفسیر سے مسیح ؑ کی الوہیت (خدا ہونا) ثابت ہوتی ہو تو اس قسم کی آیات سے تمام انسانوں کی الوہیت ثابت ہوگی، پھر اگر مسیح بھی ایسے ہی خدا اور الٰہ تھے جیسے کہ سب انسان ہیں تو خیر اس کے ماننے میں کسی کو کلام نہیں۔ پس آیت موصوفہ کے معنی وہی ہیں جو ہم نے لکھے ہیں (کہ وہ روح مخلوق تھی) (فَافْھَمْ)۔“ وَجَعَلْنٰهَا وَابْنَهَآ اٰيَةً لِّـلْعٰلَمِيْنَ : مریم اور مسیح ؑ کا جہانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانی ہونا سورة آل عمران (36 تا 63) ، نساء (156 تا 159، 171) اور مائدہ (46، 110 تا 120) میں تفصیل سے بیان ہوا ہے۔
Top