Al-Quran-al-Kareem - Adh-Dhaariyat : 48
اِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً١ۖ٘ وَّ اَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ
اِنَّ : بیشک هٰذِهٖٓ : یہ ہے اُمَّتُكُمْ : تمہاری امت اُمَّةً : امت وَّاحِدَةً : ایک (یکتا) ڮ وَّاَنَا : اور میں رَبُّكُمْ : تمہارا رب فَاعْبُدُوْنِ : پس میری عبادت کرو
بیشک یہ ہے تمہاری امت جو ایک ہی امت ہے اور میں ہی تمہارا رب ہوں، سو میری عبادت کرو۔
اِنَّ هٰذِهٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً۔۔ : بہت سے مفسرین نے یہاں امت سے مراد دین لیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کا قول نقل فرمایا : (اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓي اُمَّةٍ) [ الزخرف : 22 ] ”بیشک ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک امت (یعنی ایک دین) پر چلتے پایا۔“ یعنی تمہارا دین اور ملت ایک ہی ہے اور وہ ہے دین توحید، اور ”ہٰذِهٖ“ سے مراد اس سے پہلے مذکور انبیاء، نوح، ابراہیم، اسحاق، یعقوب، لوط، داؤد، سلیمان، ایوب، اسماعیل، ادریس، ذوالکفل، یونس، زکریا، مسیح ابن مریم ہیں کہ سب کا ایک ہی دین تھا اور سب توحید پر قائم تھے۔ کسی اور کو معبود، مشکل کشا، شفا دینے والا، بگڑی بنانے والا یا اولاد عطا کرنے والا نہیں سمجھتے تھے، یہ سب لوگ ایک ہی دین پر تھے کہ میں تمہارا رب ہوں، سو میری ہی عبادت کرو۔ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اَلْأَنْبِیَاءُ إِخْوَۃٌ لِعَلاَّتٍ أُمَّھَاتُھُمْ شَتّٰی وَدِیْنُھُمْ وَاحِدٌ) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب (واذکر في الکتاب مریم۔۔) : 3443۔ مسلم : 145؍2365 ] ”ہم انبیاء کی جماعت علاتی بھائی ہیں، جن کی مائیں مختلف ہیں اور ان کا دین ایک ہے۔“ امت کا معنی جماعت بھی ہے، مگر ایسی جماعت جس کے لوگوں کے درمیان انھیں اکٹھا رکھنے والی کوئی چیز ہو، جیسا کہ فرمایا : (وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ) [ آل عمران : 104 ] ”اور لازم ہے کہ تمہاری صورت میں ایک جماعت ہو جو نیکی کی طرف دعوت دیں۔“ یعنی یہ تمام انبیاء ایک ہی جماعت تھے جن کا رب ایک اور دین ایک تھا۔
Top