Al-Quran-al-Kareem - Al-Anbiyaa : 9
ثُمَّ صَدَقْنٰهُمُ الْوَعْدَ فَاَنْجَیْنٰهُمْ وَ مَنْ نَّشَآءُ وَ اَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِیْنَ
ثُمَّ : پھر صَدَقْنٰهُمُ : ہم نے سچا کردیا ان سے الْوَعْدَ : وعدہ فَاَنْجَيْنٰهُمْ : پس ہم نے بچا لیا انہیں وَمَنْ نَّشَآءُ : اور جس کو ہم نے چاہا وَاَهْلَكْنَا : اور ہم نے ہلاک کردیا الْمُسْرِفِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
پھر ہم نے ان سے وعدہ سچا کردیا تو ہم نے انھیں نجات دی اور اسے بھی جسے ہم چاہتے تھے اور ہم نے حد سے بڑھنے والوں کو ہلاک کردیا۔
ثُمَّ صَدَقْنٰهُمُ الْوَعْدَ۔۔ : ”صَدَقَ یَصْدُقُ“ لازم بھی آتا ہے، یعنی سچ کہنا اور متعدی بھی، یعنی سچا کردکھانا، ”پھر ہم نے ان سے وعدہ سچا کردیا۔“ ”ثُمَّ“ (پھر) کا لفظ یہ بتانے کے لیے ہے کہ رسولوں کی مخالفت ہوئی، انھیں ستایا گیا، جنگیں بھی ہوئیں مگر پھر آخر کار ہم نے ان سے مدد کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کیا، سو ہم نے رسولوں کو نجات دی اور ان کو بھی جنھیں ہم چاہتے تھے۔ اس میں رسولوں کے پیروکار بھی شامل ہیں اور کفار میں سے وہ بھی جنھیں آئندہ ایمان لانا تھا، یا جن کی اولاد کو ایمان کی توفیق ملنا تھی۔ عربوں پر سب کو ہلاک کرنے والا عذاب نہ آنے میں یہی حکمت تھی۔ ”اور حد سے بڑھنے والوں کو ہلاک کردیا“ اس میں رسول اللہ ﷺ اور آپ کے پیروکاروں کے لیے خوش خبری ہے اور کفار کے لیے وعید۔ رسولوں سے کیے گئے مدد کے وعدے اور اسے پورا کرنے کے ذکر پر مشتمل آیات سورة مجادلہ (21) ، صافات (71 تا 73) ، ابراہیم (13، 14) اور یوسف (110) میں ملاحظہ فرمائیں۔
Top