بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Quran-al-Kareem - Al-Hajj : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ١ۚ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اتَّقُوْا : ڈرو رَبَّكُمْ : اپنا رب اِنَّ : بیشک زَلْزَلَةَ : زلزلہ السَّاعَةِ : قیامت شَيْءٌ : چیز عَظِيْمٌ : بڑی بھاری
اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو، بیشک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ :”النَّاسُ“ کے ساتھ مسلم و کافر اور آیت کے نزول کے وقت موجود یا بعد میں قیامت تک آنے والے تمام لوگ مخاطب ہیں۔ بعض لوگ ”يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ“ کے ساتھ سورت کے آغاز کو اس کے مکی ہونے کی دلیل بناتے ہیں مگر یہ قاعدہ کلی نہیں، کیونکہ مدنی سورتوں میں بھی ”يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ“ کے ساتھ خطاب آیا ہے، مثلاً سورة بقرہ میں ہے : (يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ) [ البقرۃ : 21 ] مفسرین کے مطابق اس سورت میں مدنی آیات بھی ہیں، مثلاً آیت (39) : (اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُۨ) اور مکی بھی، مگر وہ ملی جلی ہیں، الگ الگ ہر ایک کے مکی یا مدنی ہونے کی تعیین معلوم نہیں۔ (قرطبی) اتَّقُوْا رَبَّكُمْ : تقویٰ کا معنی بچنا بھی ہے اور ڈرنا بھی، کیونکہ آدمی جس سے ڈرتا ہے اس سے بچتا ہے، یعنی اپنے اس محسن کے عذاب سے بچو جو پیدا کرنے سے لے کر اب تک تمہاری پرورش کر رہا ہے اور تم پر بیشمار احسان کر رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہر اس چیز سے بچو جو تمہیں اس کی سزا کا حق دار بنا سکتی ہے، خواہ وہ اس کے فرائض کا ترک ہو یا اس کے حرام کردہ کاموں کا ارتکاب، ان دونوں سے بچنا ہی اس کا تقویٰ ہے۔ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ زَلْزَلَةَ ”زَلْزَلَ یُزَلْزِلُ“ سے ”فَعْلَلَۃٌ“ کے وزن پر مصدر ہے، بہت سخت ہلانا۔ ”السَّاعَةِ“ کا لفظی معنی گھڑی اور لمحہ ہے۔ قیامت کو ”السَّاعَةِ“ اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ایک لمحے میں برپا ہوجائے گی۔ ”اِنَّ“ ایسے موقع پر اس سے پہلے والی بات کی وجہ بیان کرنے کے لیے آتا ہے، یعنی اپنے رب سے اس لیے ڈرو کہ قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔ اس میں مزید خوف کی بات یہ ہے کہ وہ صرف انسانی پیمانے کے مطابق عظیم نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اسے عظیم فرما رہے ہیں، اب اس کی عظمت اور ہولناکی کا کوئی اندازہ ہوسکتا ہے ؟ يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ : ”تَرَوْنَهَا“ میں ”ہَا“ کی ضمیر ”زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ“ میں ”زَلْزَلَةَ“ کی طرف بھی جاسکتی ہے، معنی یہ ہوگا کہ جس دن تم اس زلزلے کو دیکھو گے اور ”السَّاعَةِ“ کی طرف بھی، اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ جس دن تم اس قیامت کو دیکھو گے۔ ”ذُھُوْلٌ“ کا معنی ہے ایسی غفلت جس کے ساتھ دہشت یا خوف بھی ہو۔ ”مُرْضِعَةٍ“ عورت جس وقت بچے کو دودھ پلا رہی ہو اس وقت اسے ”مُرْضِعَۃٌ“ کہتے ہیں۔ وہ صفات جو صرف عورتوں میں پائی جاتی ہیں ان کے ساتھ ”تاء“ نہیں لگائی جاتی، مثلاً ”حَاءِضٌ، حَامِلٌ، مُرْضِعٌ“ ان کے ساتھ ”تاء“ اس وقت لگائی جاتی ہے جب وہ اس کام میں مصروف ہوں، مثلاً کوئی بھی عورت جو کسی بھی وقت دودھ پلاتی ہے ”مُرْضِعٌ“ کہلائے گی، ”مُرْضِعَۃٌ“ اس وقت ہوگی جس وقت وہ بچے کو دودھ پلا رہی ہو۔ مطلب اس وقت کی ہولناکی بیان کرنا ہے کہ دودھ پلانے والی عورت، جسے اپنے بچے سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں ہوتی، اس زلزلہ کی وجہ سے عین دودھ پلاتے ہوئے ایسی دہشت زدہ ہوگی کہ اسے اپنے بچے تک کی ہوش نہیں ہوگی۔ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا : حاملہ عورت کو ”حَامِلٌ“ کہتے ہیں، مگر یہ لفظ بوجھ اٹھانے والے کسی بھی شخص پر بولا جاسکتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ”حَامِلٌ“ کی جگہ ”ذَاتِ حَمْلٍ“ (حمل والی) کا لفظ استعمال فرمایا۔ دوسری جگہ فرمایا : (وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ) [ الطلاق : 4 ] ”حمل والی (عورتوں کو طلاق ہوجائے) تو ان کی عدت یہ ہے کہ وہ حمل وضع کرلیں۔“ مراد قیامت یا قیامت کے زلزلے کی شدت کا بیان ہے کہ ہر حمل والی اپنا حمل (جو اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ”فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ“ بہت محفوظ ٹھکانے میں ہے) اس دن کی شدت کی وجہ سے گرا دے گی۔ وَتَرَى النَّاسَ سُكٰرٰي۔۔ : ”سُكٰرٰي“ ”سَکْرَانٌ“ یا ”سَکِرٌ“ کی جمع ہے، جیسے ”کَسْلَانٌ“ کی جمع ”کُسَالٰی“ ہے، یعنی تم لوگوں کو دیکھو گے کہ وہ نشے میں ہیں، انھیں کچھ ہوش نہیں، حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے جس کی وجہ سے انھیں کوئی ہوش نہیں رہے گا۔ مفسر قاسمی ؓ نے ”سُكٰرٰي“ کو مجاز کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے، وہ فرماتے ہیں، مجاز وہ ہوتا ہے جو کسی چیز پر بولا بھی جاسکے اور اس کی نفی بھی ہو سکے، مثلاً حمزہ، سعد اور علی شیر تھے، یہ بھی درست ہے اور یہ بھی درست ہے کہ وہ شیر نہیں تھے۔ اسی طرح کسی کو بےسمجھی کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ فلاں گدھا ہے، جب کہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ گدھا نہیں ہے۔ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ : مفسرین میں اختلاف ہے کہ قیامت کے اس زلزلے سے کیا مراد ہے ؟ اس میں شک نہیں کہ قرآن مجید کی سب سے معتبر تفسیر وہ ہے جو خود قرآن میں آئی ہو، اس کے بعد وہ جو صحیح سند کے ساتھ رسول اللہ ﷺ سے آئی ہو۔ آپ ﷺ سے اس زلزلے کا موقع جو صحیح حدیث میں بیان ہوا ہے، وہ ہے جو ابوسعید خدری ؓ نے آپ ﷺ سے روایت کیا ہے، آپ نے فرمایا : ”اللہ تعالیٰ فرمائیں گے، اے آدم ! وہ عرض کریں گے، لبیک وسعدیک ! بار بار حاضر ہوں، بار بار حاضر ہوں اور بھلائی ساری تیرے ہاتھ میں ہے۔ اللہ فرمائیں گے، آگ والی جماعت نکال کر الگ کر دو۔ وہ کہیں گے، اور آگ والی جماعت کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے، ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ تو اس وقت بچہ بوڑھا ہوجائے گا : (وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكٰرٰي وَمَا هُمْ بِسُكٰرٰي وَلٰكِنَّ عَذَاب اللّٰهِ شَدِيْدٌ) ”اور ہر حمل والی اپنا حمل گرا دے گی اور تو لوگوں کو نشے والے دیکھے گا، حالانکہ وہ نشے والے نہیں ہوں گے اور لیکن اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔“ تو یہ بات صحابہ پر بہت سخت گزری، انھوں نے کہا : ”یا رسول اللہ ! وہ آدمی ہم میں سے کون ہوگا ؟“ آپ ﷺ نے فرمایا : ”خوش ہوجاؤ کہ یاجوج ماجوج میں سے ایک ہزار ہوں گے اور تم میں سے ایک ہوگا۔“ پھر فرمایا : ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں تو امید رکھتا ہوں کہ تم اہل جنت کا تہائی حصہ ہو گے۔“ راوی نے کہا، یہ سن کر ہم نے اللہ کی حمد کی اور تکبیر کہی۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! یقیناً میں امید رکھتا ہوں کہ تم اہل جنت کا نصف ہو گے۔ دوسری امتوں کے مقابلے میں تمہاری مثال سیاہ بیل کی جلد میں ایک سفید بال کی سی ہے یا جس طرح گدھے کے بازو کے اندرونی جانب ایک گول نشان ہوتا ہے۔“ [ بخاري، الرقاق، باب (ان زلزلۃ الساعۃ شیء عظیم)۔۔ : 6530۔ مسلم، الإیمان، باب قولہ : یقول اللہ لآدم أخرج بعث النار۔۔ : 222 ] یہ صحیح حدیث دلیل ہے کہ اس آیت میں مذکور زلزلے سے مراد وہ وقت ہے جب آدم ؑ کو ایک ہزار میں سے نو سو نناوے آدمی جہنم کے لیے نکال کر الگ کرنے کا حکم ہوگا۔ اس وقت لوگوں پر ایسا زلزلہ طاری ہوگا، وہ ایسے شدید ہلائے جائیں گے اور اس قدر خوف زدہ ہوں گے کہ جس کا ذکر اس آیت میں آیا ہے۔ بعض لوگ اس حدیث کو آیت کا مصداق قرار دینے پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس وقت نہ کوئی حاملہ ہوگی اور نہ دودھ پلانے والی، تو حاملہ حمل کیسے گرائے گی اور دودھ پلانے والی اپنے بچے سے کیسے غافل ہوگی ؟ اس لیے اس آیت سے وہ وقت مراد نہیں، بلکہ ایک صاحب نے تسلیم کرکے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے، اسے ماننے سے انکار کردیا ہے۔ کوئی ایسے حضرات کو سمجھائے کہ کیا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو اس بات کا علم نہیں تھا، پھر انھوں نے یہ کیوں فرمایا ؟ دراصل ایسے حضرات نے کلام کے اسلوب کو سمجھا ہی نہیں، یہ تو اس وقت کی ہولناکی اور شدت سے استعارہ ہے کہ اگر اس وقت حاملہ عورتیں ہوں تو سب کا حمل گرجائے گا اور اگر دودھ پلانے والیاں ہوں تو وہ اپنے بچے سے غافل ہوجائیں گی۔ اس سوال کا اس سے بھی مضبوط جواب یہ ہے کہ جابر ؓ نے فرمایا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا : (یُبْعَثُ کُلُّ عَبْدٍ عَلٰی مَا مَاتَ عَلَیْہِ) [ مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمھا، باب الأمر بحسن الظن باللہ۔۔ : 2878 ] ”ہر بندہ اس حالت پر اٹھے گا جس پر فوت ہوا تھا۔“ اس سے معلوم ہوا کہ دودھ پلانے والیاں اور حمل والیاں صرف پہلے نفخہ کے وقت ہی اس حال میں نہیں ہوں گی بلکہ قیامت والے دن اٹھتے وقت بھی ان کی یہی حالت ہوگی۔ اس سے منکرین حدیث کا سوال سرے سے ختم ہوجاتا ہے۔ ابن جریر، بقاعی اور بہت سے مفسرین نے فرمایا کہ صحیح حدیث کے بعد کوئی اور تفسیر معتبر نہیں ہے۔ بعض مفسرین نے اس کا مصداق قیامت کا پہلا نفخہ لیا ہے اور صور میں تین نفخے بتائے ہیں، ایک نفخۂ فزع، ایک نفخۂ صعق اور ایک نفخۂ بعث۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے وہ زلزلہ مراد ہے جو پہلے نفخہ یعنی نفخۂ فزع سے پیدا ہوگا، کیونکہ قیامت کو تو نہ کوئی حاملہ ہوگی اور نہ دودھ پلانے والی۔ اس نفخے سے ہر چیز درہم برہم ہوجائے گی، اس وقت جو بھی دودھ پلانے والی عورت ہوگی وہ اپنے بچے کو دودھ پلانے سے غافل ہوجائے گی۔ علقمہ اور شعبی کا بھی یہی قول ہے۔ طبری نے ابوہریرہ ؓ سے اس قول پر مشتمل مرفوع حدیث یہ کہہ کر نقل کی ہے کہ اس کی اسناد میں نظر ہے (کیونکہ اس میں دو راوی مجہول ہیں)۔ طبری فرماتے ہیں : ”یہ قول ہی اصل قول ہوتا اگر صحیح احادیث اس کے خلاف نہ آتیں، کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ اللہ تعالیٰ کی وحی اور قرآن کے معانی کا سب سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔“ علاوہ ازیں تحقیق یہی ہے کہ نفخے دو ہی ہیں، تین نفخوں والی یہ روایت ثابت نہیں۔ امام بقاعی اور صاحب احسن التفسیر نے ایک بہت اچھی بات فرمائی ہے : ”عین ممکن ہے کہ ”وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكٰرٰي وَمَا هُمْ بِسُكٰرٰي وَلٰكِنَّ عَذَاب اللّٰهِ شَدِيْدٌ“ سے یہ زلزلہ بھی مراد ہو جو آدم ؑ کو اہل نار کے الگ نکالنے کے حکم کے وقت پیدا ہوگا اور اس سے پہلے کے زلزلے بھی (یعنی صور میں پہلی پھونک کا زلزلہ اور دوبارہ پھونک کا زلزلہ، جس سے سب لوگ زندہ ہو کر محشر کی طرف دوڑیں گے) کیونکہ قیامت کا دن بہت لمبا (پچاس ہزار سال کا) ہے تو ہر زلزلے کی نسبت قیامت کی طرف درست ہے۔“ اب اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس طویل دن میں کتنے زلزلے برپا ہوں گے جو سب کے سب ”وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكٰرٰي وَمَا هُمْ بِسُكٰرٰي وَلٰكِنَّ عَذَاب اللّٰهِ شَدِيْدٌ“ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل و کرم سے اپنی پناہ میں رکھے۔
Top