Al-Quran-al-Kareem - Al-Hajj : 28
لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَ یَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ١ۚ فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَ٘
لِّيَشْهَدُوْا : تاکہ وہ آموجود ہوں مَنَافِعَ : فائدوں کی جگہ لَهُمْ : اپنے وَيَذْكُرُوا : وہ یاد کریں (لیں) اسْمَ اللّٰهِ : اللہ کا نام فِيْٓ : میں اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ : جانے پہچانے (مقررہ) دن عَلٰي : پر مَا : جو رَزَقَهُمْ : ہم نے انہیں دیا مِّنْ : سے بَهِيْمَةِ : چوپائے الْاَنْعَامِ : مویشی فَكُلُوْا : پس تم کھاؤ مِنْهَا : اس سے وَاَطْعِمُوا : اور کھلاؤ الْبَآئِسَ : بدحال الْفَقِيْرَ : محتاج
تاکہ وہ اپنے بہت سے فائدوں میں حاضر ہوں اور چند معلوم دنوں میں ان پالتو چوپاؤں پر اللہ کا نام ذکر کریں جو اس نے انھیں دیے ہیں، سو ان میں سے کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو کھلاؤ۔
لِّيَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ : یعنی لوگ پیدل اور سوار ہو کر حج کے لیے آئیں گے، تاکہ وہ اپنے بہت سے فائدوں میں حاضر ہوں۔ حج کا اصل مقصد تو عبادت کے ذریعے سے دینی اور اخروی فوائد حاصل کرنا ہے، لیکن ضمناً اس میں بہت سے دنیوی اور ملی فوائد بھی پائے جاتے ہیں۔ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حج و عمرہ کے دینی و دنیوی فوائد دونوں ذکر فرمائے ہیں، چناچہ فرمایا : (تَابِعُوْا بَیْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ فَإِنَّھُمَا یَنْفِیَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوْبَ کَمَا یَنْفِی الْکِیْرُ خَبَثَ الْحَدِیْدِ وَالذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ) [ ترمذي، الحج، باب ما جاء في ثواب الحج والعمرۃ : 810، عن عبد اللّٰہ بن مسعود ؓ ] ”حج اور عمرہ پے در پے کیا کرو، کیونکہ یہ فقر اور گناہوں کو اس طرح دور کرتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے اور سونے چاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔“ دینی فوائد میں بہت بڑا فائدہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کا حصول ہے۔ چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا : (اَلْعُمْرَۃُ إِلَی الْعُمْرَۃِ کَفَّارَۃٌ لِمَا بَیْنَھُمَا وَالْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَہُ جَزَاءٌ إِِلَّا الْجَنَّۃُ) [ بخاري، الحج، باب وجوب العمرۃ و فضلھا : 1773۔ مسلم : 1349 ]”عمرہ سے لے کر عمرہ، دونوں کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزا جنت کے سوا کچھ نہیں۔“ گناہوں کی معافی بھی بہت بڑا نفع ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا : (مَنْ حَجَّ لِلّٰہِ فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمِ وَلَدَتْہٗ أُمُّہٗ) [ بخاري، الحج، باب فضل الحج المبرور : 1521، عن أبي ہریرہ۔ مسلم : 1350 ؒ ّ ] ”جو شخص حج کرے، نہ کوئی شہوانی فعل کرے اور نہ کوئی نافرمانی کرے تو واپس اس طرح (گناہوں سے پاک ہو کر) جائے گا جس طرح اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔“ رسول اللہ ﷺ نے عمرو بن عاص ؓ سے فرمایا تھا : (أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ یَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہٗ وَأَنَّ الْھِجْرَۃَ تَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَھَا وَأَنَّ الْحَجَّ یَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہٗ) [ مسلم، الإیمان، باب کون الإسلام یھدم ما قبلہ۔۔ : 121 ] ”کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں کہ اسلام اپنے سے پہلے (گناہوں) کو گرا دیتا ہے اور یہ کہ ہجرت اپنے سے پہلے (گناہوں) کو گرا دیتی ہے اور یہ کہ حج اپنے سے پہلے (گناہوں) کو گرا دیتا ہے۔“ حج کے فوائد میں سے سب سے بڑا فائدہ تمام دنیا کے مسلمانوں کا جمع ہونا اور اس بات کا مظاہرہ ہے کہ ہم سب ایک امت ہیں، کالے، گورے، سرخ اور زرد کسی کو کسی پر رنگ یا زبان کی وجہ سے برتری حاصل نہیں، سب بھائی بھائی ہیں۔ اس موقع پر سب کا ایک دوسرے کے حالات سے آگاہ ہونا اور مشکل میں گرفتار اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے سوچنا اور اس کا بندوبست کرنا ہے۔ ان فوائد میں سے ایک فائدہ اس موقع پر تجارت، صنعت، مزدوری وغیرہ کے ذریعے سے حلال روزی کمانا بھی ہے، چناچہ فرمایا : (لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ) [ البقرۃ : 198 ] ”تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اپنے رب کا کوئی فضل تلاش کرو۔“ یہ مسلمانوں کی بین الاقوامی مصنوعات اور پیداوار سے آگاہی اور تمام دنیا کی باہمی تجارت منظم کرنے کا بہترین موقع ہے۔ اسی طرح اس موقع پر دنیا بھر کے علماء سے ملاقات اور دین و دنیا کے علوم میں اضافہ بھی حج کے فوائد میں سے بہت بڑا فائدہ ہے۔ پھر اس سفر کے دوران دنیا کے مختلف علاقوں اور لوگوں کے حالات سے واقفیت بھی بہت بڑا علم ہے جو حج کی برکات میں سے عظیم برکت ہے۔ خلاصہ یہ کہ حج مسلمانوں کے بیشمار سیاسی، اقتصادی، معاشی اور تمدنی فوائد کا جامع ہے۔ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ۔۔ : قرآن مجید کی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ چوپاؤں پر اللہ تعالیٰ کا نام لینے سے مراد انھیں ”بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ“ پڑھ کر ذبح کرنا ہے۔ دیکھیے سورة انعام (118 تا 121) یہاں حج کا ایک مقصد یہ بیان فرمایا کہ حج کرنے والے حضرات چند معلوم دنوں میں ان پالتو چوپاؤں پر اللہ کا نام ذکر کریں جو اس نے انھیں دیے ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے چوپاؤں کی نعمت بھی یاد دلائی ہے۔ یہ ”اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ“ (چند معلوم دن) کون سے ہیں ؟ بعض بڑے بڑے جلیل القدر حضرات نے اس سے مراد ذوالحجہ کے پہلے دس دن اور سورة بقرہ (203) میں ”اَيَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ“ سے مراد ایام تشریق لیے ہیں ؟ مگر بقول مفسر امین شنقیطی صاحب اضواء البیان : ”ان حضرات کی جلالت قدر کے باوجود ان کا موقف درست نہیں، بلکہ درست بات ان حضرات کی ہے جو اس سے یوم النحر (دس ذوالحجہ) اور اس کے بعد والے دو یا تین دن مراد لیتے ہیں۔ کیونکہ اس آیت میں چند معلوم دنوں میں قربانی کا ذکر ہے، جب کہ ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں صرف ایک دن (دس ذوالحجہ) کو قربانی ہوتی ہے (حالانکہ ”مَعْلُوْمٰت“ کم از کم تین ہونے چاہییں)۔ خلاصہ یہ کہ ان ”اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ“ سے مراد وہ دن ہیں جن میں قربانی کی جاتی ہے اور وہ یوم النحر اور اس کے بعد دو دن یا تین دن ہیں۔“ یوم النحر کے بعد پورے ایام تشریق (11، 12، 13) یعنی چار دن میں قربانی کی دلیل رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان ہے : (کُلُّ أَیَّام التَّشْرِیْقِ ذَبْحٌ) ”ایام تشریق سارے ذبح کے دن ہیں۔“ شیخ البانی ؓ نے ”مَنَاسِکُ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ“ میں فرمایا کہ اسے احمد نے روایت کیا اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے اور یہ میرے نزدیک اپنے مجموع طرق کے ساتھ قوی ہے، اسی لیے میں نے اسے سلسلہ صحیحہ (2476) میں درج کیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ان چار دنوں میں اللہ کی عطا کردہ بہت بڑی نعمت پالتو جانوروں کو اس کے نام پر قربان کرنا حج کے مقاصد میں سے ایک بہت بڑا مقصد ہے۔ ابوبکر صدیق ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : (أَیُّ الْحَجِّ أَفْضَلُ ؟ قَالَ الْعَجُّ وَ الثَّجُّ) [ ترمذي، الحج، باب ما جاء في فضل التلبیۃ والنحر : 827 ] ”حج کی کون سی چیز افضل ہے ؟“ فرمایا : ”(لبیک کے ساتھ) آواز بلند کرنا اور خون بہانا (قربانی کرنا)۔“ فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا۔۔ : اس سے پہلے حج کرنے والوں کا ذکر غائب کے صیغوں کے ساتھ ہے، اب انھیں مخاطب کرلیا ہے کہ چوپائے جو میں نے تمہیں عطا کیے اور تم نے میرے نام پر قربان کیے، اب میری اس نعمت کا تقاضا ہے کہ خود بھی کھاؤ اور تنگ دست فقیر کو بھی کھلاؤ۔ ”الْبَاۗىِٕسَ“ کا معنی ہے جو مالی طور پر تنگدست ہو۔ فقیر بھی وہی ہے، صرف فقیر کی بدحالی پر رحم کو ابھارنے کے لیے ”الْفَقِيْر“ سے پہلے ”الْبَاۗىِٕسَ“ ذکر فرمایا، کیونکہ فقیر کا لفظ تو عام استعمال ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ غنی کو نہیں کھلا سکتے، بلکہ یہ فقراء کو کھلانے کی تاکید کے لیے ہے، اغنیاء کو کھلانے کا ذکر آیت (36) میں آ رہا ہے۔ خود کھانے کا حکم اس لیے دیا کہ مشرکین اپنی قربانی میں سے نہیں کھاتے تھے۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ خود کھانے کا حکم وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب یا رخصت کے لیے ہے، یعنی تمہیں خود بھی کھانے کی اجازت ہے، ضروری نہیں کہ کھاؤ۔ بہرحال امر کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہو سکے تو اپنی قربانی کا گوشت خود بھی کھانا چاہیے، جیسا کہ جابر ؓ بیان کرتے ہیں : (أَنَّ الْبُدْنَ الَّتِيْ نَحَرَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَتْ مِءَۃَ بَدَنَۃٍ نَحَرَ بِیَدِہٖ ثَلاَثًا وَّ سِتِّیْنَ وَنَحَرَ عَلِيٌّ مَا غَبَرَ وَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ کُلِّ بَدَنَۃٍ بِبَضْعَۃٍ فَجُعِلَتْ فِيْ قِدْرٍ ثُمَّ شَرِبَا مِنْ مَرْقِھَا) [ مسند أحمد : 3؍331، ح : 14561 ] ”وہ اونٹ جو رسول اللہ ﷺ نے نحر کیے، ایک سو اونٹ تھے۔ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے تریسٹھ (63) اونٹ نحر کیے اور باقی علی ؓ نے کیے اور نبی ﷺ نے ہر اونٹ کا ایک ایک ٹکڑا لینے کا حکم دیا جو ایک دیگ میں ڈالے گئے، پھر دونوں نے اس کا کچھ شوربا پیا۔“ شعیب ارناؤوط نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔
Top