Al-Quran-al-Kareem - Al-Hajj : 49
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّمَاۤ اَنَا لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۚ
قُلْ : فرما دیں يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنَا : میں لَكُمْ : تمہارے لیے نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ : ڈرانے والا آشکارا
کہہ دے اے لوگو ! میں تو بس تمہارے لیے کھلم کھلاڈرانے والا ہوں۔
قُلْ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّمَآ اَنَا لَكُمْ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ : اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ یہ لوگ آپ سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا ایک جواب تو اپنا قانون مہلت ذکر فرمایا، یہ آیت دوسرا جواب ہے۔ فرمایا، ان سے کہہ دیجیے کہ میں تو صرف تمہیں ڈرانے والا ہوں، میرا کام کفر کے برے انجام سے خبردار اور آگاہ کرنا ہے، عذاب جلدی لانا یا دیر سے لانا میرا کام نہیں، یہ مجھے بھیجنے والے کا کام ہے۔ میں صرف پیغام پہنچانے والا ہوں، خود اللہ نہیں ہوں۔ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : یعنی تمام دنیا کے لوگوں کو پیغام پہنچا دو خواہ کسی قوم یا ملک سے تعلق رکھتے ہوں، خواہ قیامت تک کسی زمانے کے لوگ ہوں۔ دیکھیے سورة سبا (28)۔ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ : یعنی میں تمہیں ڈرانے والا (اور بشارت دینے والا) ہوں، تمہیں کھول کر ہر وہ چیز بتاتا ہوں جو تمہارے لیے نقصان دہ ہے، تاکہ تم اس سے بچ جاؤ اور ہر وہ چیز بتاتا ہوں جو تمہارے فائدے کی ہے، تاکہ تم اسے اختیار کرلو۔ یہاں ”نَذِيْرٌ“ کے ساتھ ”بَشِیْرٌ“ بھی ہے مگر الفاظ میں اسے حذف کردیا گیا ہے، کیونکہ مقام اس عذاب سے ڈرانے کا ہے جسے وہ جلدی مانگ رہے ہیں۔ یہاں ”بَشِیْرٌ“ کو الگ اس لیے ذکر نہیں فرمایا کہ ہر نذیر بشیر بھی ہوتا ہے، کیونکہ اس کی خبردار کردہ چیزوں سے بچنے کا نتیجہ خوشی کی خبر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ”نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ“ کے ضمن میں ”بَشِیْرٌ“ کے تذکرے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس کے بعد پہلی آیت میں بشارت ہے اور دوسری میں نذارت۔ (بقاعی)
Top