Al-Quran-al-Kareem - Al-Hajj : 67
لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ فَلَا یُنَازِعُنَّكَ فِی الْاَمْرِ وَ ادْعُ اِلٰى رَبِّكَ١ؕ اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِیْمٍ
لِكُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت کے لیے جَعَلْنَا : ہم نے مقرر کیا مَنْسَكًا : ایک طریق عبادت هُمْ : وہ نَاسِكُوْهُ : اس پر بندگی کرتے ہیں فَلَا يُنَازِعُنَّكَ : سو چاہیے کہ تم سے نہ جھگڑا کریں فِي الْاَمْرِ : اس معاملہ میں وَادْعُ : اور بلاؤ اِلٰى رَبِّكَ : اپنے رب کی طرف اِنَّكَ : بیشک تم لَعَلٰى : پر هُدًى : راہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھی
ہر امت کے لیے ہی ہم نے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا ہے جس کے مطابق وہ عبادت کرنے والے ہیں، سو وہ تجھ سے اس معاملے میں ہرگز جھگڑا نہ کریں اور تو اپنے رب کی طرف دعوت دے، بیشک تو یقینا سیدھے راستے پر ہے۔
لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ : ”مَنْسَكًا“ ”نَسَکَ یَنْسُکُ“ (ن، ک) سے مصدر میمی ہے، عبادت، قربانی، عبادت کا طریقہ یا قربانی کا طریقہ، یا یہ ظرف ہے، یعنی عبادت یا قربانی کی جگہ۔ ”نَسْکٌ“ اور ”نُسُکٌ“ عبادت، ذبیحہ۔ رسول اللہ ﷺ نے عید الاضحی کی نماز پڑھائی، پھر لوگوں کی طرف رخ کرکے فرمایا : (إِنَّ أَوَّلَ نُسُکِنَا فِيْ یَوْمِنَا ھٰذَا أَنْ نَّبْدَأَ بالصَّلَاۃِ ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ) [ بخاري، العیدین، باب استقبال الإمام الناس في خطبۃ العید : 976، عن البراء۔ ] ”ہمارے آج کے دن میں ہماری پہلی عبادت یہ ہے کہ ہم نماز پڑھیں، پھر واپس جائیں اور قربانی کریں۔“ یہاں نماز کو ”نُسُکٌ“ کہا گیا ہے۔ ”لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا“ کا جملہ اس سے پہلے آیت (34) میں بھی گزرا ہے، وہاں اس کا معنی قربانی کا طریقہ کیا گیا ہے، کیونکہ وہاں آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ پالتو مویشیوں پر اللہ کا نام لینے یعنی ذبح کرنے کا ذکر ہے۔ 3 آیات کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب حج کے بعض مناسک میں تبدیلی کی، اسی طرح جیسے پہلی امتوں کے لیے مقرر کردہ بعض احکام منسوخ بھی کیے اور بعض میں تبدیلی فرمائی تو کفار مکہ نے، جو دین ابراہیم کے پیروکار ہونے کے دعوے دار تھے اور یہود و نصاریٰ سب نے جھگڑنا شروع کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اصل دین ایک ہے جو توحید ہے، مگر ہم نے ہر زمانے کے لوگوں کے لیے اس زمانے کے احوال و ضروریات کے مطابق عبادت کا ایک طریقہ مقرر فرمایا، جس کے مطابق وہ عبادت کرتے تھے۔ جس میں بعض چیزیں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی تھیں، جس طرح موسیٰ ؑ کی امت کے لیے تورات اور عیسیٰ ؑ کی امت کے لیے تورات کے ساتھ انجیل تھی۔ اب قیامت تک دنیا کے تمام لوگ محمد ﷺ کی امت ہیں اور ان کا ضابطۂ حیات قرآن مجید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا : (شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا) [ المائدۃ : 48 ] ”تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک راستہ اور ایک طریقہ مقرر کیا ہے۔“ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْاَمْرِ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ اگر بعد میں آنے والے نبی کے زمانے میں کسی عبادت کے طریقے میں کوئی تبدیلی کر دے تو بندوں کا کام یہ ہے کہ وہ دل و جان سے اسے قبول کریں نہ کہ اس معاملے میں پیغمبر سے جھگڑا شروع کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو فرمایا کہ یہ لوگ ہرگز آپ سے اس معاملے میں جھگڑا نہ کریں، یعنی آپ بھی ان سے جھگڑا نہ کریں اور نہ انھیں جھگڑے کا موقع دیں اور آپ اپنے رب کی طرف دعوت دیتے چلے جائیں اور یقین رکھیں کہ آپ بالکل سیدھے راستہ پر ہیں۔ سورة جاثیہ میں فرمایا : (ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰي شَرِيْعَةٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ) [ الجاثیۃ : 18 ] ”پھر ہم نے تجھے (دین کے) معاملے میں ایک واضح راستے پر لگا دیا، سو اسی پر چل اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چل جو نہیں جانتے۔“
Top