Al-Quran-al-Kareem - Al-Muminoon : 2
الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ
الَّذِيْنَ : اور جو هُمْ : وہ فِيْ صَلَاتِهِمْ : اپنی نمازوں میں خٰشِعُوْنَ : خشوع (عاجزی) کرنے والے
وہی جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔
الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ : طبری نے اپنی حسن سند کے ساتھ ابن عباس ؓ سے ”خٰشِعُوْنَ“ کی تفسیر ”خَاءِفُوْنَ سَاکِنُوْنَ“ روایت کی ہے۔ (طبری : 25627) یعنی وہ نماز میں دل سے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہوتے ہیں اور اس خوف کا ان کے جسم پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ وہ نماز کے منافی کسی بھی حرکت سے اجتناب کرتے ہیں، نہ ادھر ادھر نگاہ پھیرتے ہیں، نہ اپنے کپڑے یا ڈاڑھی سے کھیلتے ہیں اور نہ انگلیاں چٹخاتے ہیں۔ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نماز میں ادھر ادھر جھانکنے کے متعلق پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : (ھُوَ اخْتِلَاسٌ یَخْتَلِسُہُ الشَّیْطَانُ مِنْ صَلَاۃِ الْعَبْدِ) [ بخاري، الأذان، باب الالتفات في الصلاۃ : 751 ] ”یہ شیطان کا آدمی کی نماز سے اچک کرلے جانا ہے، جو شیطان بندے کی نماز سے اچک کرلے جاتا ہے۔“ 3 اس آیت کی تفسیر میں بہت سے مفسرین نے ایک روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو نماز میں اپنی ڈاڑھی سے کھیلتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : ”اگر اس کا دل خشوع کرتا تو اس کے دوسرے اعضا بھی خشوع کرتے۔“ شیخ البانی نے ”سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ (110)“ میں اس کا موضوع (خود بنائی ہوئی) ہونا دلائل سے ذکر فرمایا ہے۔ تنبیہ : نماز میں ڈاڑھی، کپڑے یا کسی بھی چیز سے کھیلنے اور بےمقصد حرکت کرنے کا خشوع، یعنی دل کے خوف اور جسم کے سکون کے منافی ہونا واضح بات ہے، مگر یہ ہرگز جائز نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے ذمے وہ الفاظ لگائے جائیں جو آپ ﷺ سے ثابت نہیں، کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا : (مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ) [ بخاري، العلم، باب إثم من کذب۔۔ : 110۔ مسلم : 3 ]”جس شخص نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنا لے۔“ 3 امام بخاری ؓ نے اپنی صحیح میں ایک باب باندھا ہے : ”نماز میں ہاتھ سے مدد لینے کا باب، جب وہ کام نماز ہی سے متعلق ہو۔“ پھر اس عنوان کے تحت ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : ”آدمی نماز میں اپنے جسم سے جس طرح چاہے مدد حاصل کرے۔“ پھر لکھتے ہیں کہ ابو اسحاق نے نماز میں اپنی ٹوپی نیچے رکھی اور اسے اٹھایا اور علی ؓ نے اپنی ہتھیلی اپنی بائیں کلائی کے جوڑ پر رکھے رکھی، سوائے اس کے کہ اپنی جلد کو کھجلی کریں یا اپنا کپڑا درست کریں۔“ اس کے بعد امام صاحب نے ابن عباس ؓ سے وہ حدیث نقل کی ہے جس میں انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھڑے ہو کر رات کی نماز پڑھنے کا ذکر کیا ہے۔ اس میں یہ بھی ہے : ”آپ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا کان پکڑ کر اسے مروڑنے لگے (یعنی مجھے کان سے پکڑ کر دائیں طرف کیا)۔“ [ بخاري، العمل في الصلاۃ، باب استعانۃ الید في الصلاۃ إذا کان من أمر الصلاۃ : 1198 ]
Top