Al-Quran-al-Kareem - Al-Muminoon : 28
فَاِذَا اسْتَوَیْتَ اَنْتَ وَ مَنْ مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ نَجّٰىنَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
فَاِذَا : پھر جب اسْتَوَيْتَ : تم بیٹھ جاؤ اَنْتَ : تم وَمَنْ : اور جو مَّعَكَ : تیرے ساتھ (ساتھی) عَلَي : پر الْفُلْكِ : کشتی فَقُلِ : تو کہنا الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے نَجّٰىنَا : ہمیں نجات دی مِنَ : سے الْقَوْمِ : قوم الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
پھر جب تو اور جو تیرے ساتھ ہیں، کشتی پر چڑھ جاؤ تو کہہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات دی۔
فَاِذَا اسْتَوَيْتَ اَنْتَ وَمَنْ مَّعَكَ عَلَي الْفُلْكِ۔۔ : کشتی پر سوار ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمد کا حکم دیا اور اس کے الفاظ خود بتائے، جیسے آدم ؑ کو خود دعا سکھائی اور جیسے قیامت کے دن ہمارے نبی ﷺ کو حمد سکھائیں گے۔ دوسری جگہ چوپاؤں اور کشتیوں کے متعلق فرمایا : (وَجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَالْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَ 12 ۝ ۙلِتَسْتَوٗا عَلٰي ظُهُوْرِهٖ ثُمَّ تَذْكُرُوْا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ اِذَا اسْـتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَـقُوْلُوْاسُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّــرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِيْنَ 13؀ۙوَاِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ) [ الزخرف : 12 تا 14 ] ”اور تمہارے لیے وہ کشتیاں اور چوپائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ تاکہ تم ان کی پیٹھوں پر جم کر بیٹھو، پھر اپنے رب کی نعمت یاد کرو، جب ان پر جم کر بیٹھ جاؤ اور کہو پاک ہے وہ جس نے اسے ہمارے لیے تابع کردیا، حالانکہ ہم اسے قابو میں لانے والے نہیں تھے۔ اور بیشک ہم اپنے رب کی طرف ضرور لوٹ کر جانے والے ہیں۔“ رسول اللہ ﷺ سواری پر سوار ہو کر یہ دعا پڑھتے تھے : (اَللّٰہُ أَکْبَرُ ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ ، سُبْحَانَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا وَ مَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِیْنَ وَ إِنَّا إِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ ، اَللّٰھُمَّ إِنَّا نَسْءَلُکَ فِيْ سَفَرِنَا ھٰذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوٰی وَ مِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰی، اَللّٰھُمَّ ھَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَا ھٰذَا وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَہُ ، اَللّٰھُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ والْخَلِیْفَۃُ فِي الْأَھْلِ ، اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ وَعْثَآء السَّفَرِ وَکَآبَۃِ الْمَنْظَرِ وَ سُوْٓءِ الْمُنْقَلَبِ فِي الْمَالِ وَالْأَھْلِ) ”اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، پاک ہے وہ جس نے اسے ہمارے لیے مسخر کردیا، حالانکہ ہم اسے ملنے والے نہیں تھے اور یقیناً ہم اپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیں۔ اے اللہ ! ہم اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ کا سوال کرتے ہیں اور اس عمل کا جسے تو پسند کرے سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ ! ہمارا یہ سفر ہم پر آسان فرما دے اور ہم سے اس کی دوری کم کر دے۔ اے اللہ ! تو ہی سفر میں ساتھی اور گھر والوں میں نائب ہے۔ اے اللہ ! میں تجھ سے سفر کی مشقت سے اور مال اور اہل میں منظر کے غم سے اور ناکام لوٹنے کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔“ اور جب رسول اللہ ﷺ سفر سے واپس آتے تو یہی دعا پڑھتے، البتہ یہ الفاظ زیادہ کہتے : (آءِبُوْنَ ، تَاءِبُوْنَ ، عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ) [ مسلم، الحج، باب استحباب الذکر إذا رکب۔۔ : 1342 ] ”ہم واپس لوٹنے والے، توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے اور اپنے رب ہی کی حمد کرنے والے ہیں۔“ نوح ؑ کو سوار ہو کر یہ دعا پڑھنے کا حکم ہوا : (الْـحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ نَجّٰىنَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ) [ المؤمنون : 28 ] ”سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات دی۔“ اور انھوں نے یہ کہہ کر ساتھیوں کو کشتی میں سوار ہونے کا حکم دیا : (بِسْمِ اللّٰهِ مَجْــرٖ۩ىهَا وَمُرْسٰىهَا ۭ اِنَّ رَبِّيْ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) [ ھود : 41 ] ”اللہ کے نام کے ساتھ اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا ہے۔ بیشک میرا رب یقیناً بیحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔“ فَقُلِ الْـحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ نَجّٰىنَا۔۔ : ”الظّٰلِمِيْنَ“ سے مراد مشرک ہیں، کیونکہ شرک ظلم عظیم ہے۔ ظلم کا معنی ”وَضْعُ الشَّيْءِ فِيْ غَیْرِ مَحَلِّہِ“ (کسی چیز کو اس کی جگہ کے علاوہ کہیں رکھنا) ہے اور ظلم کا معنی اندھیرا بھی ہے، گویا ظالم اندھیرے میں چیزوں کو ان کے اصل محل کے بجائے ادھر ادھر رکھ دیتا ہے۔ سب سے بڑا حق اللہ کا ہے، وہ غیر کو دیا تو یہ سب سے بڑا ظلم ٹھہرا۔ (ابن عاشور) 3 ظالم لوگوں سے نجات پر اللہ کی حمد کا حکم اس لیے دیا کہ وہ نوح ؑ اور ان کے ساتھیوں کو بیشمار اذیتوں کا نشانہ بناتے تھے، اس کے علاوہ نوح ؑ اور ان کے ساتھیوں کا ان میں رہنا، ان کے کفر و شرک اور گندے اور غلیظ کاموں کو دیکھنا بجائے خود شدید تکلیف دہ تھا۔ اب ان سے نجات ملی، دشمن غرق ہوئے، الگ رہنے کی جگہ ملی، اپنا ماحول اور اپنی مجلس بنی، تو اس پر شکر ادا کرنے کا حکم ہوا۔ 3 اسی لیے مسلمان کو دعوت یا جہاد کے مقصد کے بغیر کفار میں رہائش رکھنا حرام ہے، کیونکہ مسلسل کفر و شرک اور بدکاری و بےحیائی کا ارتکاب دیکھ دیکھ کر یا تو ہمیشہ شدید تکلیف میں رہے گا، یا اس کی اپنی غیرت و حمیت بھی ختم ہوجائے گی۔ چناچہ اگر ایسی جگہ رہتا ہے تو وہاں سے ہجرت کا حکم ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (أَنَا بَرِيْءٌ مِنْ کُلِّ مُسْلِمٍ یُقِیْمُ بَیْنَ أَظْھُرِ الْمُشْرِکِیْنَ) [ أبوداوٗد، الجہاد، باب النھي عن قتل۔۔ : 2645 ] ”میں ہر اس مسلم سے بری ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے۔“
Top