Al-Quran-al-Kareem - Al-Muminoon : 62
وَ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا وَ لَدَیْنَا كِتٰبٌ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
وَلَا نُكَلِّفُ : اور ہم تکلیف نہیں دیتے نَفْسًا : کسی کو اِلَّا : مگر وُسْعَهَا : اس کی طاقت کے مطابق وَلَدَيْنَا : اور ہمارے پاس كِتٰبٌ : ایک کتاب (رجسٹر) يَّنْطِقُ : وہ بتلاتا ہے بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک وَهُمْ : اور وہ (ان) لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے (ظلم نہ ہوگا)
اور ہم کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی وسعت کے مطابق اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے اور وہ ظلم نہیں کیے جائیں گے۔
وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا۔۔ : یعنی ہم نے اپنے مومن بندوں کی جو صفات بیان کی ہیں، یہ ایسی نہیں ہیں کہ انسان کی وسعت اور گنجائش سے باہر ہوں اور وہ ان پر عمل نہ کرسکتا ہو۔ کیونکہ یہ ہمارا دستور ہی نہیں کہ کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف دیں۔ اسی لیے جہاں عذر آتا ہے رخصت دے دی جاتی ہے۔ پانی نہیں تو تیمم کرلو، سفر ہے تو نماز قصر کرلو اور روزہ افطار کرلو، بیمار ہو تو بیٹھ کر یا لیٹ کر نماز پڑھ لو، خوف ہے تو پیدل یا سوار ہی پڑھ لو، بھوک سے بےبس ہو تو بقدر ضرورت حرام کھالو، اگر نفس کی سرکشی سے نافرمانی ہوجائے تو توبہ کرکے پلٹ آؤ۔ پھر اتنی آسانیوں کے بعد بھی بےرخی اور سرکشی کی روش اپناؤ، تو یاد رکھو کہ ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے، جس میں تمہارا چھوٹا، بڑا، ظاہر اور مخفی ہر عمل محفوظ ہے۔ دیکھیے سورة کہف (49) اور جاثیہ (29) رازی نے فرمایا : ”کتاب کو انسان کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو بولتا ہے، کیونکہ کتاب تو بولتی نہیں، بلکہ جو اس میں لکھا ہوتا ہے اس کا اظہار کرتی ہے۔“ مگر اب وڈیو کیمرے کے ذریعے سے کسی بھی شخص کے عمل کی تصویر بھی محفوظ ہوتی ہے اور آواز بھی۔ اس لیے اس تاویل کی ضرورت نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت تو ہمارے خیال سے بھی کہیں بلند ہے، جس کے حکم سے چمڑے اور ہاتھ پاؤں بول کر سب کچھ بتائیں گے، اس کے حکم سے کتاب کا بولنا کون سا بعید ہے۔ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ : یعنی نہ کسی کو قصور کے بغیر سزا ملے گی، نہ کسی کا قصور دوسرے کے نامۂ اعمال میں درج ہوگا، نہ کسی عمل کی جزا میں کمی ہوگی اور نہ سزا میں زیادتی۔
Top