Al-Quran-al-Kareem - Al-Muminoon : 75
وَ لَوْ رَحِمْنٰهُمْ وَ كَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّلَجُّوْا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر رَحِمْنٰهُمْ : ہم ان پر رحم کریں وَكَشَفْنَا : اور ہم دور کردیں مَا بِهِمْ : جو ان پر مِّنْ ضُرٍّ : جو تکلیف لَّلَجُّوْا : ارے رہیں فِيْ : میں۔ پر طُغْيَانِهِمْ : اپنی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : بھٹکتے رہیں
اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور انھیں جو بھی تکلیف لاحق ہے دور کردیں تو بھی وہ یقینا اپنی سر کشی میں اصرار کریں گے، اس حال میں کہ بھٹک رہے ہوں گے۔
وَلَوْ رَحِمْنٰهُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّنْ ضُرٍّ۔۔ : اس آیت کی ایک تفسیر وہ ہے جو ابن عاشور نے ”التحریر والتنویر“ میں اور بقاعی نے ”نظم الدرر“ میں فرمائی ہے۔ روح المعانی میں بھی اسے ایک امکان کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ وہ تفسیر یہ ہے کہ اس آیت کا عطف آیت (64) : (حَتّيٰٓ اِذَآ اَخَذْنَا مُتْرَفِيْهِمْ بالْعَذَابِ اِذَا هُمْ يَجْــــَٔــرُوْنَ) (یہاں تک کہ جب ہم ان کے خوش حال لوگوں کو عذاب میں پکڑیں گے، اچانک وہ بلبلا رہے ہوں گے) پر ہے اور اس آیت اور اس آیت کے درمیان کی آیات جملہ ہائے معترضہ ہیں، جن سے مقصود ان کے خلاف دلائل کا ذکر اور ان کے عذر بہانے ختم کرنا ہے۔ یعنی اگر ہم ان کے چیخنے، پکارنے اور بلبلانے پر رحم کرکے ان پر آنے والا عذاب دور کردیں، تب بھی وہ اپنی سرکشی سے باز نہیں آئیں گے، بلکہ اسی پر اڑے رہیں گے اور اسی میں سر مارتے پھریں گے، کیونکہ کفر اور سرکشی ان کی طبعی خصلت بن چکی ہے، جو کسی طرح ان سے جدا نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح فرمایا : (وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ) [ الأنعام : 28 ] ”اور اگر انھیں واپس بھیج دیا جائے تو ضرور پھر وہی کریں گے جس سے انھیں منع کیا گیا تھا اور بلاشبہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔“ آیات کے سیاق سے یہ تفسیر نہایت مناسب ہے۔ دوسری تفسیر شیخ عبد الرحمان سعدی نے کی ہے کہ اس میں کفار کی شدید سرکشی اور ہٹ دھرمی کا بیان ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں، مثلاً قحط پڑجاتا ہے، بھوک سے لاچار ہوجاتے ہیں، سمندری طوفان میں گھر جاتے ہیں، یا کوئی وبا آ گھیرتی ہے تو خلوص دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اسے دور کرنے کی دعا کرتے ہیں، پھر اگر اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرما کر وہ مصیبت دور کر دے تو بھی وہ اپنے کفر اور سرکشی پر اڑے رہتے ہیں اور اسی میں سر مارتے پھرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (وَاِذَآ اَذَقْــنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّاۗءَ مَسَّتْھُمْ اِذَا لَھُمْ مَّكْرٌ فِيْٓ اٰيَاتِنَا ۭ قُلِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًا ۭ اِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ 21؀ ھُوَ الَّذِيْ يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۭ حَتّٰى اِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ ۚ وَجَرَيْنَ بِهِمْ بِرِيْحٍ طَيِّبَةٍ وَّفَرِحُوْا بِهَا جَاۗءَتْهَا رِيْحٌ عَاصِفٌ وَّجَاۗءَھُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ اُحِيْطَ بِهِمْ ۙ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ڬ لَىِٕنْ اَنْجَيْـتَنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ 22؀ فَلَمَّآ اَنْجٰىھُمْ اِذَا ھُمْ يَبْغُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ) [ یونس : 21 تا 23 ] ”اور جب ہم لوگوں کو کوئی رحمت چکھاتے ہیں، کسی تکلیف کے بعد، جو انھیں پہنچی ہو، تو اچانک ان کے لیے ہماری آیات کے بارے میں کوئی نہ کوئی چال ہوتی ہے۔ کہہ دے اللہ چال میں زیادہ تیز ہے۔ بیشک ہمارے بھیجے ہوئے لکھ رہے ہیں جو تم چال چلتے ہو۔ وہی ہے جو تمہیں خشکی اور سمندر میں چلاتا ہے، یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں ہوتے ہو اور وہ انھیں لے کر عمدہ ہوا کے ساتھ چل پڑتی ہیں اور وہ اس پر خوش ہوتے ہیں تو ان (کشتیوں) پر سخت تیز ہوا آجاتی ہے اور ان پر ہر جگہ سے موج آجاتی ہے اور وہ یقین کرلیتے ہیں کہ ان کو گھیر لیا گیا ہے، تو اللہ کو اس طرح پکارتے ہیں کہ ہر عبادت کو اس کے لیے خالص کرنے والے ہوتے ہیں، یقیناً اگر تو نے ہمیں اس سے نجات دے دی تو ہم ضرور ہی شکر کرنے والوں سے ہوں گے۔ پھر جب اس نے انھیں نجات دے دی اچانک وہ زمین میں ناحق سرکشی کرنے لگتے ہیں۔“
Top