Al-Quran-al-Kareem - An-Noor : 11
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ١ؕ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ١ۚ وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ جَآءُوْ بالْاِفْكِ : بڑا بہتان لائے عُصْبَةٌ : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے لَا تَحْسَبُوْهُ : تم اسے گمان نہ کرو شَرًّا : برا لَّكُمْ : اپنے لیے بَلْ هُوَ : بلکہ وہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر ہے تمہارے لیے لِكُلِّ امْرِۍ : ہر ایک ٓدمی کے لیے مِّنْهُمْ : ان میں سے مَّا اكْتَسَبَ : جو اس نے کمایا (کیا) مِنَ الْاِثْمِ : گناہ سے وَالَّذِيْ : اور وہ جس تَوَلّٰى : اٹھایا كِبْرَهٗ : بڑا اس کا مِنْهُمْ : ان میں سے لَهٗ : اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
بیشک وہ لوگ جو بہتان لے کر آئے ہیں وہ تمھی سے ایک گروہ ہیں، اسے اپنے لیے برا مت سمجھو، بلکہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ ان میں سے ہر آدمی کے لیے گناہ میں سے وہ ہے جو اس نے گناہ کمایا اور ان میں سے جو اس کے بڑے حصے کا ذمہ دار بنا اس کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ جَاۗءُوْ بالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ : ”اَلإِْفْکُ“ کا لفظی معنی الٹا کرنا ہوتا ہے، مراد ایسا بہتان ہے جو حقیقت کے بالکل خلاف ہو۔ اس سے مراد وہ بہتان ہے جو منافقین نے ام المومنین عائشہ ؓ پر لگایا تھا، دو تین مخلص مسلمان بھی سادہ دلی کی وجہ سے ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔ اس کی تفصیل خود عائشہ ؓ سے سنیے، وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی عادت تھی کہ آپ جب سفر پر جاتے تو اپنی بیویوں کے نام قرعہ ڈالتے، جس بیوی کے نام قرعہ نکلتا اسے آپ اپنے ساتھ لے جاتے۔ چناچہ آپ ﷺ نے ایک غزوہ (بنو المصطلق) میں قرعہ ڈالا جو میرے نام نکلا، تو میں آپ کے ساتھ روانہ ہوگئی۔ یہ واقعہ حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ میں ایک ہودے میں سوار رہتی اور جب اترتی تو ہودے سمیت اتاری جاتی۔ ہم اسی طرح سفر کرتے رہے، جب آپ ﷺ اس غزوہ سے فارغ ہوئے اور سفر سے لوٹے تو ہم لوگ مدینہ کے نزدیک آپہنچے، آپ نے ایک رات کوچ کا اعلان کیا۔ یہ اعلان سن کر میں اٹھی اور پیدل چل کر لشکر سے پار نکل گئی، جب حاجت سے فارغ ہوئی اور لشکر کی طرف آنے لگی تو مجھے معلوم ہوا کہ ”اظفار“ کے نگینوں کا ہار (جو میرے گلے میں تھا) ٹوٹ کر گرگیا ہے۔ میں اسے ڈھونڈنے لگی اور اسے ڈھونڈنے میں دیر لگ گئی۔ اتنے میں وہ لوگ جو میرا ہودہ اٹھا کر اونٹ پر لادا کرتے تھے، انھوں نے ہودہ اٹھایا اور میرے اونٹ پر لاد دیا۔ وہ یہ سمجھتے رہے کہ میں ہودہ میں موجود ہوں، کیونکہ اس زمانہ میں عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں، پُر گوشت اور بھاری بھر کم نہ ہوتی تھیں اور تھوڑا سا کھانا کھایا کرتی تھیں۔ لہٰذا ان لوگوں نے جب ہودہ اٹھایا تو انھیں اس کے ہلکے پن کا کوئی خیال نہ آیا، علاوہ ازیں میں ان دنوں ایک کم سن لڑکی تھی۔ خیر وہ ہودہ اونٹ پر لاد کر چل دیے۔ لشکر کے روانہ ہونے کے بعد میرا ہار مجھے مل گیا اور میں اسی ٹھکانے کی طرف چلی گئی جہاں رات کو اترے تھے، دیکھا تو وہاں نہ کوئی پکارنے والا ہے اور نہ جواب دینے والا (مطلب سب جا چکے تھے) ، میں نے ارادہ کیا کہ اپنے ٹھکانے پر چلی جاؤں، کیونکہ میرا خیال تھا کہ جب وہ لوگ مجھے نہ پائیں گے تو اسی جگہ تلاش کرنے آئیں گے۔ میں وہاں بیٹھی رہی، نیند نے غلبہ کیا اور میں سو گئی۔ لشکر کے پیچھے پیچھے (گرے پڑے سامان کی خبر رکھنے کے لیے) صفوان بن معطل السلمی الذکوانی مقرر تھے۔ وہ رات چلے اور صبح میرے ٹھکانے کے قریب پہنچے اور دور سے کسی انسان کو سوتے ہوئے دیکھا، پھر میرے قریب آئے تو مجھے پہچان لیا، کیونکہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے انھوں نے مجھے دیکھا تھا، جب انھوں نے مجھے پہچان کر ”إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ“ پڑھا تو میں بیدار ہوگئی اور اپنی چادر سے چہرہ ڈھانپ لیا۔ اللہ کی قسم ! انھوں نے نہ مجھ سے کوئی بات کی اور نہ میں نے ”إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ“ کے سوا کوئی بات سنی۔ انھوں نے اپنی سواری بٹھائی اور اس کے اگلے پاؤں کو پاؤں سے دبائے رکھا تو میں اس پر سوار ہوگئی۔ وہ آگے سے اونٹنی کی مہار پکڑ کر پیدل چلتے رہے، یہاں تک کہ ہم لشکر سے اس وقت جا ملے جب وہ عین دوپہر کو گرمی کی شدت کی وجہ سے پڑاؤ کیے ہوئے تھے۔ تو جن کی قسمت میں تباہی لکھی تھی وہ تباہ ہوئے۔ اس تہمت کا ذمہ دار عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا۔ خیر ہم لوگ مدینہ پہنچے، وہاں پہنچ کر میں بیمار ہوگئی اور مہینا بھر بیمار رہی۔ لوگ تہمت لگانے والوں کی باتوں کا چرچا کرتے رہے اور مجھے خبر تک نہ ہوئی، البتہ ایک بات سے مجھے شک سا پڑتا تھا، وہ یہ کہ آپ ﷺ کی وہ مہربانی جو بیماری کی حالت میں مجھ پر ہوا کرتی تھی وہ اس بیماری میں مجھے نظر نہیں آئی۔ بس یہ تھا کہ آپ میرے پاس آتے تو سلام کہتے، پھر فرماتے : ”کیا حال ہے ؟“ اور چلے جاتے، اس سے مجھے شک پڑتا، مگر مجھے کسی بات کی خبر نہ تھی۔ بیماری سے کچھ افاقہ ہوا تو میں کمزور ہوگئی، ابھی کمزور ہی تھی کہ ”مناصع“ کی طرف گئی۔ مسطح کی ماں (عاتکہ) میرے ساتھ تھی۔ ہم لوگ ہر رات کو وہاں رفع حاجت کے لیے جایا کرتے تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہم اپنے گھروں کے نزدیک بیت الخلا نہیں بناتے تھے، بلکہ اگلے زمانہ کے عربوں کی طرح رفع حاجت کے لیے باہر جایا کرتے تھے۔ کیونکہ گھروں کے قریب بیت الخلا بنانے سے اس کی بدبو ہمیں تکلیف دیتی۔ خیر میں اور مسطح کی ماں جو ابو رہم بن عبد مناف کی بیٹی تھی اور اس کی ماں صخر بن عامر کی بیٹی اور ابوبکر صدیق کی خالہ تھی، اس کا بیٹا مسطح تھا، رفع حاجت سے فراغت کے بعد ہم دونوں گھر کو آرہی تھیں کہ مسطح کی ماں کا پاؤں چادر میں الجھ کر پھسلا تو وہ کہنے لگی : ”مسطح ہلاک ہو۔“ میں نے اسے کہا : ”تم نے بہت بری بات کہی، کیا تم اس شخص کو کو ستی ہو جو بدر میں شریک تھا ؟“ وہ کہنے لگی : ”اے بھولی لڑکی ! کیا تم نے وہ نہیں سنا جو اس نے کہا ہے ؟“ میں نے کہا : ”اس نے کیا کہا ہے ؟“ تب اس نے تہمت لگانے والوں کی باتیں مجھ سے بیان کیں تو میری بیماری میں مزید اضافہ ہوگیا۔ جب میں گھر پہنچی تو رسول اللہ ﷺ گھر تشریف لائے اور سلام کرکے پوچھا : ”اب کیسی ہو ؟“ میں نے کہا : ”کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں والدین کے پاس جاؤں ؟“ میرا ارادہ اس وقت یہ تھا کہ ان سے خبر کی تحقیق کروں۔ آپ ﷺ نے مجھے اجازت دے دی۔ میں اپنے والدین کے پاس آگئی تو میں نے اپنی ماں سے کہا : ”امی ! لوگ (میرے بارے میں) کیا باتیں کر رہے ہیں ؟“ اس نے کہا : ”بیٹی ! اتنا رنج نہ کرو، اللہ کی قسم ! اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی مرد کے پاس کوئی خوبصورت عورت ہوتی ہے اور وہ اس سے محبت کرتا ہے اور اس کی سوکنیں بھی ہوں تو وہ بہت کچھ کرتی رہتی ہیں۔“ میں نے کہا : ”سبحان اللہ ! لوگوں نے اس کا چرچا بھی کردیا۔“ چناچہ میں وہ ساری رات روتی رہی، صبح ہوگئی مگر میرے آنسو تھمتے ہی نہ تھے، نہ آنکھوں میں نیند کا سرمہ تک آتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید ؓ کو بلایا، کیونکہ وحی اترنے میں دیر ہو رہی تھی اور آپ ﷺ ان سے اپنی اہلیہ سے علیحدگی کے متعلق مشورہ چاہتے تھے۔ چناچہ اسامہ بن زید نے تو آپ کو اس کے مطابق مشورہ دیا جو وہ جانتے تھے کہ عائشہ ایسی ناپاک باتوں سے پاک ہے اور اس کے مطابق کہا جو ان کے دل میں آپ کے گھر والوں کی محبت تھی۔ انھوں نے کہا : ”یا رسول اللہ ! وہ آپ کی اہلیہ ہے اور ہم خیر کے سوا کچھ نہیں جانتے۔“ علی (t) نے کہا : ”یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی تنگی نہیں کی اور عورتیں اس کے علاوہ بھی بہت ہیں اور اگر آپ بریرہ سے پوچھیں تو وہ آپ کو ٹھیک ٹھیک بتادے گی۔“ چناچہ آپ ﷺ نے بریرہ (r) کو بلایا اور اس سے پوچھا : ”کیا تم نے کوئی ایسی بات دیکھی ہے کہ عائشہ کے متعلق تمہیں کچھ شک ہو ؟“ بریرہ (r) کہنے لگیں : ”اللہ کی قسم، جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ! میں نے اس میں کوئی بات نہیں دیکھی جسے میں اس کا عیب سمجھوں، زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ وہ نو عمر لڑکی ہے، گھر والوں کا گندھا ہوا آٹا رکھ کر سو جاتی ہے اور بکری آ کر اسے کھا جاتی ہے۔ ‘ ‘(اس کے بعد) رسول اللہ ﷺ (خطبہ دینے کے لیے) کھڑے ہوئے اور اس دن عبداللہ بن ابی کے خلاف مدد مانگی، فرمایا : (یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِیْنَ ! مَنْ یَعْذِرُنِيْ مِنْ رَجُلٍ قَدْ بَلَغَنِيْ أَذَاہُ فِيْ أَھْلِ بَیْتِيْ ؟ فَوَ اللّٰہِ ! مَا عَلِمْتُ عَلٰی أَھْلِيْ إِلَّا خَیْرًا، وَ لَقَدْ ذَکَرُوْا رَجُلًا مَا عَلِمْتُ عَلَیْہِ إِلَّا خَیْرًا، وَمَا کَانَ یَدْخُلُ عَلٰی أَھْلِيْ إِلَّا مَعِيَ) ”مسلمانو ! اس آدمی کے خلاف کون میری حمایت کرتا ہے جس کی تکلیف مجھے میرے گھر والوں کے متعلق پہنچی ہے، اللہ کی قسم ! میں نے اپنے اہل خانہ میں بھلائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا اور ان لوگوں نے ایک ایسے آدمی کا ذکر کیا ہے جس میں خیر کے سوا میں نے کچھ نہیں دیکھا اور وہ میرے گھر کبھی اکیلا نہیں بلکہ میرے ساتھ ہی آتا ہے۔“ یہ سن کر سعد بن معاذ انصاری (اوس قبیلے کے سردار) کھڑے ہوئے اور کہنے لگے : ”میں اس کے مقابل آپ کی مدد کرتا ہوں، اگر وہ اوس قبیلے سے ہے تو میں اس کی گردن اڑاتا ہوں اور اگر ہمارے بھائیوں خزرج قبیلے سے ہے تو آپ جو حکم دیں گے ہم بجا لائیں گے۔“ یہ بات سن کر سعد بن عبادہ، جو خزرج قبیلے کے سردار تھے، کھڑے ہوئے، وہ اس سے پہلے نیک آدمی تھے، مگر قومی حمیّت نے انھیں بھڑ کا دیا، انھوں نے سعد بن معاذ سے کہا : ”اللہ کی قسم ! تم نے جھوٹ کہا، اللہ کی قسم ! نہ تم اسے قتل کرو گے اور نہ ہی قتل کرسکتے ہو۔“ اتنے میں اسید بن حضیر ؓ جو سعد بن معاذ ؓ کے چچا کے بیٹے تھے، کھڑے ہوئے اور انھوں نے سعد بن عبادہ سے کہا : ”تم جھوٹ کہہ رہے ہو، اللہ کی قسم ! ہم اسے ضرور قتل کریں گے، کیونکہ تم منافق ہو، منافقوں کی طرف داری کرتے ہوئے، ان کی طرف سے جھگڑتے ہو۔“ اس پر اوس اور خزرج دونوں قبیلوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور قریب تھا کہ آپس میں لڑ پڑیں، رسول اللہ ﷺ ابھی منبر ہی پر تھے، آپ ﷺ انھیں سمجھاتے اور ٹھنڈا کرتے رہے، یہاں تک کہ وہ خاموش ہوگئے اور آپ ﷺ بھی خاموش ہوگئے۔ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں وہ سارا دن روتی رہی، نہ میرے آنسو تھمتے تھے نہ آنکھوں میں نیند کا سرمہ تک پڑتا تھا۔ (والد نے مجھے گھر واپس جانے کا حکم دیا اور میں گھر چلی گئی) میرے والدین صبح میرے پاس آگئے، میں دو رات اور ایک دن سے مسلسل رو رہی تھی، اس عرصہ میں مجھے نہ نیند آئی تھی اور نہ آنسو تھمتے تھے، والدین کو گمان ہوتا تھا کہ رو رو کر میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ پھر ایسا ہوا کہ میرے والدین میرے پاس بیٹھے تھے اور میں رو رہی تھی کہ ایک انصاری عورت نے اندر آنے کی اجازت مانگی، میں نے اجازت دے دی تو وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگی۔ ہم اس حال میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، آپ نے سلام کہا اور بیٹھ گئے۔ اس سے پہلے جب سے مجھ پر تہمت لگی تھی آپ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے۔ آپ ایک مہینا انتظار کرتے رہے، مگر وحی نہیں آئی۔ آپ ﷺ نے بیٹھ کر خطبہ پڑھا، پھر فرمایا : (أَمَّا بَعْدُ ، یَا عَاءِشَۃُ ! فَإِنَّہُ قَدْ بَلَغَنِيْ عَنْکِ کَذَا وَ کَذَا، فَإِنْ کُنْتِ بَرِیْءَۃً فَسَیُبَرِّءْکِ اللّٰہُ ، وَإِنْ کُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ فَاسْتَغْفِرِي اللّٰہَ وَتُوبِيْ إِلَیْہِ ، فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ بِذَنْبِہِ ثُمَّ تَابَ إِلَی اللّٰہِ تَاب اللّٰہُ عَلَیْہِ) ”اما بعد ! عائشہ ! مجھے تمہارے بارے میں یہ بات پہنچی ہے، اگر تو بےگناہ ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے ضرور بری کر دے گا اور اگر تو کسی گناہ سے آلودہ ہوئی ہے تو اللہ سے معافی مانگ اور توبہ کر، کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرکے توبہ کرتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔“ جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی بات ختم کی تو میرے آنسو سوکھ گئے، حتیٰ کہ مجھے ان کا ایک قطرہ بھی محسوس نہیں ہوتا تھا، میں نے اپنے والد سے کہا : ”رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ کہا ہے اس کا جواب دیں۔“ انھوں نے کہا : ”اللہ کی قسم ! مجھے معلوم نہیں میں کیا کہوں۔“ پھر میں نے اپنی ماں سے کہا : ”آپ رسول اللہ ﷺ کو جواب دیں۔“ انھوں نے کہا : ”اللہ کی قسم ! مجھے معلوم نہیں میں کیا کہوں۔“ آخر میں خود ہی جواب دینے لگی، میں نو عمر لڑکی تھی، قرآن میں نے زیادہ نہیں پڑھا تھا، میں نے کہا : (إِنِّيْ وَاللّٰہِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَقَدْ سَمِعْتُمْ ھٰذَا الْحَدِیْثَ حَتَّی اسْتَقَرَّ فِيْ أَنْفُسِکُمْ وَ صَدَّقْتُمْ بِہِ ، فَلَءِنْ قُلْتُ لَکُمْ : إِنِّيْ بَرِیْءَۃٌ، وَاللّٰہُ یَعْلَمُ أَنّيْ بَرِیْءَۃٌ، لَا تُصَدِّقُوْنَنِيْ بِذٰلِکَ ، وَلَءِنِ اعْتَرَفْتُ لَکُمْ بِأَمْرٍِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ أَنِّيْ مِنْہُ بَرِیْءَۃٌ لَتُصَدِّقُنِّيْ ، وَاللّٰہِ مَا أَجِدُ لَکُمْ مَثَلًا إِلَّا قَوْلَ أَبِيْ یُوْسُفَ قَالَ : (فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ ۭ وَاللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰي مَا تَصِفُوْنَ) [ یوسف : 18 ]) ”اللہ کی قسم ! میں جانتی ہوں کہ آپ لوگوں نے یہ بات سنی ہے، حتیٰ کہ آپ کے دل میں جم گئی ہے اور آپ نے اسے سچا سمجھ لیا ہے، اب اگر میں آپ سے کہوں کہ میں بےگناہ ہوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں بےگناہ ہوں، تو تم مجھے اس میں سچا نہیں سمجھو گے اور اگر میں کسی بات کا اعتراف کرلوں، جب کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اس سے بری ہوں تو آپ مجھے سچا سمجھیں گے۔ اللہ کی قسم ! میں اپنی اور تمہاری مثال ایسی ہی سمجھتی ہوں جیسے یوسف کے باپ نے کہا تھا : ”سو (میرا کام) اچھا صبر ہے اور اللہ ہی ہے جس سے اس پر مدد مانگی جاتی ہے، جو تم بیان کرتے ہو۔“ پھر میں نے کروٹ بدل لی اور بستر پر لیٹ گئی۔ میں اس وقت جانتی تھی کہ میں بےگناہ ہوں اور اللہ تعالیٰ ضرور میری بےگناہی کی وجہ سے مجھے بری کر دے گا، لیکن اللہ کی قسم ! مجھے یہ گمان تک نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی وحی نازل کرنے والا ہے جس کی تلاوت کی جائے گی اور میرے دل میں میری شان اس سے کہیں کم تر تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی بات فرمائے گا جس کی تلاوت کی جایا کرے گی۔ مجھے تو یہ امید تھی کہ رسول اللہ ﷺ نیند میں خواب دیکھیں گے، جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ مجھے پاک قرار دے گا۔ تو اللہ کی قسم ! ابھی رسول اللہ ﷺ وہاں سے چلے نہ تھے، نہ ہی گھر والوں میں سے کوئی باہر گیا تھا کہ آپ پر وحی نازل ہونے لگی اور آپ پر وہ سختی ہونے لگی جو اس موقع پر ہوا کرتی تھی، یہاں تک کہ آپ سے موتیوں کی طرح پسینا ٹپکنے لگا، حالانکہ وہ سردی کا دن تھا۔ ایسا اس کلام کے بوجھ کی وجہ سے ہوتا تھا جو آپ پر نازل ہوتا تھا۔ جب وہ حالت ختم ہوئی تو آپ خوش تھے اور ہنس رہے تھے۔ پھر پہلی بات جو آپ نے کہی یہ تھی : (یَا عَاءِشَۃُ ! أَمَّا اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ فَقَدْ بَرَّأَکِ) ”عائشہ ! اللہ عز و جل نے تمہیں بری کردیا۔“ میری والدہ نے کہا : ”رسول اللہ ﷺ کی طرف اٹھو (اور شکریہ ادا کرو)۔“ میں نے کہا : ”اللہ کی قسم ! میں آپ کی طرف نہیں اٹھوں گی اور اللہ کے سوا کسی کا شکریہ ادا نہیں کروں گی۔“ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں : (ۧاِنَّ الَّذِيْنَ جَاۗءُوْ بالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ۔۔ اَنَّ اللّٰهَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ) [ النور : 11 تا 20 ] جب اللہ تعالیٰ نے میری براءت میں یہ آیات نازل فرمائیں تو ابوبکر صدیق (t) نے، جو محتاجی اور قرابت کی وجہ سے مسطح پر خرچ کیا کرتے تھے، کہا : ”اللہ کی قسم ! میں مسطح پر کبھی کچھ خرچ نہیں کروں گا، کیونکہ اس نے عائشہ کے متعلق ایسی باتیں کی ہیں۔“ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (وَلَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ اَنْ يُّؤْتُوْٓا اُولِي الْقُرْبٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ډ وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا ۭ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) [ النور : 22 ] ”اور تم میں سے فضیلت اور وسعت والے اس بات سے قسم نہ کھا لیں کہ قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دیں اور لازم ہے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخشے اور اللہ بیحد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔“ یہ آیت سن کر ابوبکر نے کہا : ”کیوں نہیں ؟ اللہ کی قسم ! مجھے پسند ہے کہ اللہ مجھے بخش دے۔“ اور وہ مسطح پر جو خرچ کیا کرتے تھے دوبارہ کرنے لگے اور کہا : ”اللہ کی قسم ! میں کبھی یہ معمول بند نہیں کروں گا۔“ عائشہ ؓ نے فرمایا : ”رسول اللہ ﷺ (اس تہمت کے زمانہ میں) زینب بنت جحش ؓ سے میرے بارے میں پوچھا کرتے تھے کہ زینب تمہیں کیا معلوم ہے، یا تم نے کیا دیکھا ہے ؟ تو وہ یہی کہتی کہ میں اپنے کان اور آنکھ کی خوب احتیاط رکھتی ہوں، مجھے تو اس کے اچھا ہونے کے سوا کچھ معلوم نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی بیویوں میں سے زینب ہی میرا مقابلہ کرتی تھی، اللہ تعالیٰ نے اس کی پرہیزگاری کی وجہ سے اسے بچا لیا اور اس کی بہن حمنہ اس کی خاطر لڑنے لگی۔ تو جس طرح دوسرے تہمت لگانے والے تباہ ہوئے وہ بھی تباہ ہوئی۔“ [ بخاري، التفسیر، باب : (لو لا إذ سمعتموہ ظن المؤمنون۔۔) : 4750 ] اِنَّ الَّذِيْنَ جَاۗءُوْ بالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ۔۔ : ایک ذہن کے لوگوں کے گروہ اور جماعت کو ”عُصْبَۃٌ“ اور ”عِصَابَۃٌ“ کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہوتے ہیں اور ”عَصَبَ یَعْصِبُ“ (ض) کا معنی باندھنا اور مضبوط کرنا ہے، یعنی جو لوگ یہ عظیم بہتان اپنے پاس سے بنا کر لائے ہیں ان کا شمار مسلمانوں میں ہوتا ہے، اس لیے ان سے معاملہ کرتے وقت ان کے ساتھ غیر مسلموں والا سلوک نہ کرو، کیونکہ یہ تمھی میں سے ہیں، ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ ان کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں اور بات باہمی فساد تک جا پہنچے۔ جیسا کہ تجربے سے یہ بات ثابت بھی ہوگئی ہے کہ جب آپ نے عبداللہ بن ابی کے مقابلے میں مدد کے لیے کہا تو قریب تھا کہ لوگ لڑ پڑتے، اگر نبی کریم ﷺ انھیں ٹھنڈا نہ کرتے۔ اس لیے اللہ سبحانہ نے یہ کہہ کر کہ ”جو لوگ یہ بہتان لائے ہیں تمھی میں سے ایک گروہ ہیں“ ان کا بہتان اور جھوٹ بھی واضح فرمایا اور زیادہ تعاقب سے بھی منع فرما دیا۔ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ ۭ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ : یہ بات مخلص مسلمانوں کے اطمینان کے لیے فرمائی، جنھیں اس بہتان سے صدمہ پہنچا تھا، خصوصاً جن کا اس واقعہ سے براہ راست تعلق تھا، مثلاً نبی کریم ﷺ ، ابوبکر صدیق، عائشہ، ان کی والدہ اور صفوان بن معطل ؓ۔ فرمایا، تم اس واقعہ کو اپنے لیے برا مت سمجھو، بلکہ یہ تمہارے لیے کئی لحاظ سے بہتر ہے : 1 اس واقعہ سے رسول اللہ ﷺ ، عائشہ، ان کے والدین اور صفوان بن معطل ؓ کو جو رنج و غم پہنچا اور مسلسل ایک ماہ تک وہ شدید کرب میں مبتلا رہے، اس کرب پر صبر اور بہتان لگانے والوں سے درگزر کا یقیناً اللہ کے ہاں بہت اجر ہے، فرمایا : (اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ) [ الزمر : 10 ] ”صرف صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر کسی شمار کے بغیر دیا جائے گا۔“ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کے ایک اشارے سے تمام بہتان لگانے والوں کی گردنیں تن سے جدا ہوسکتی تھیں۔ اس اجر کے علاوہ براءت کی آیات نازل ہونے پر ان تمام حضرات کو اتنی ہی خوشی ہوئی جتنا صدمہ پہنچا تھا، چناچہ رسول اللہ ﷺ آیات اترنے پر ہنس رہے تھے، اسی طرح عائشہ، ان کے والدین، صفوان بن معطل ؓ اور تمام مسلمانوں کو درجہ بدرجہ خوشی ہوئی۔ 2 ام المومنین عائشہ ؓ کو اس واقعہ سے جو عزت ملی امت مسلمہ میں سے کسی کو حاصل نہ ہوسکی کہ ان کی بریت کے لیے قرآن مجید اترا، جو قیامت تک تمام دنیا میں پڑھا جاتا رہے گا اور قرآن نے ان کی جو براءت بیان فرمائی رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں اور آپ کی وفات کے بعد ام المومنین عائشہ ؓ کی پاکیزہ زندگی اس کی سچی شہادت ہے کہ وہ ہر بہتان سے پاک ہیں۔ اس سے قرآن کا اعجاز بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس کی کوئی پیش گوئی غلط ثابت نہ ہوئی ہے، نہ ہوگی۔ 3 اس واقعہ میں یہ بھی خیر ہے کہ بہتان لگانے والے مخلص مسلمانوں پر حد لگنے سے وہ گناہ سے پاک ہوگئے اور منافقین کا نفاق ظاہر ہوگیا، جس سے آئندہ ان کے نقصانات سے بچنا آسان ہوگیا۔ 4 اس واقعہ سے صحابہ کرام ؓ کی نیک نفسی اور پاک طینتی بھی ثابت ہوتی ہے کہ مسلسل ایک ماہ کے پروپیگنڈے کے باوجود مخلص مسلمانوں میں سے صرف تین آدمی حسان بن ثابت، مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش ؓ اس پروپیگنڈے کا شکار ہوئے، باقی تمام صحابہ اس بدگمانی سے پوری طرح محفوظ رہے۔ ازواج مطہرات میں سے کسی نے عائشہ ؓ کی بدنامی میں حصہ نہیں لیا، حتیٰ کہ زینب بنت جحش ؓ نے، جو عائشہ ؓ کی برابر کی چوٹ تھیں، سوکن ہونے کے باوجود قسم کھا کر عائشہ ؓ کے پاک ہونے کی شہادت دی۔ ابو ایوب انصاری ؓ اور ان کی بیوی کا واقعہ بھی، جو آگے آ رہا ہے، صحابہ کے کریم النفس اور پاک طینت ہونے کا زبردست ثبوت ہے۔ ابوبکر ؓ کا بہتان لگانے کے باوجود مسطح سے حسن سلوک ان کی خشیت الٰہی اور صبر کا بہترین نمونہ ہے۔ عائشہ ؓ کا حسان بن ثابت ؓ سے بہتان کے باوجود حسن سلوک اور ان کی عزت افزائی کرنا ان کے عالی نفس ہونے کی دلیل ہے۔ 5 اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ عالم الغیب نہیں تھے، ورنہ آپ ایک ماہ تک مسلسل کرب میں مبتلا نہ رہتے۔ اس سے اس غلو کی جڑ کٹ گئی جس میں اس سے پہلے یہود و نصاریٰ مبتلا ہوئے اور جس میں بعض نادان مسلمان بھی مبتلا ہیں۔ 6 اس واقعہ کے نتیجہ میں زنا اور قذف کی حد نازل ہوئی اور قیامت تک کے لیے مسلمان مردوں اور عورتوں کی عصمت و عفت بہتان طرازوں سے محفوظ کردی گئی اور مسلم معاشرے میں بےحیائی کی اشاعت کا پوری طرح سد باب کردیا گیا۔ لِكُلِّ امْرِۍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ : یعنی جس شخص نے اس فتنے میں جتنا حصہ لیا اسی قدر گناہ گار ہوا اور سزا کا مستحق ہوا۔ کسی نے اپنے پاس سے بہتان باندھ کر طوفان اٹھایا، کسی نے بہتان باندھنے والے کی زبانی موافقت کی، کوئی سن کر ہنس دیا، کسی نے خاموشی سے سن لیا، حالانکہ اسے انکار کرنا چاہیے تھا اور کسی نے سنتے ہی کہہ دیا کہ یہ صاف جھوٹ ہے، یہ بات کہنے والوں کو اللہ نے پسند فرمایا، باقی سب کو تھوڑا بہت الزام دیا۔ وَالَّذِيْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِيْمٌ : اس سے مراد رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ہے، جیسا کہ خود عائشہ ؓ نے فرمایا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے منبر پر اسی کے متعلق فرمایا کہ اس کی تکلیف مجھے میرے گھر والوں کے متعلق پہنچی ہے، دیکھیے زیر تفسیر آیت کا پہلا فائدہ۔ بعض روایات میں حسان بن ثابت ؓ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے، مگر صحیح بات یہی ہے کہ حسان بن ثابت ؓ کا قصور صرف اتنا تھا کہ انھوں نے سن کر یہ بات آگے کردی، ورنہ یہ بہتان گھڑنے والا عبداللہ بن ابی ہی تھا۔ یہی ظالم لوگوں کو جمع کرتا اور نہایت چالاکی سے خود دامن بچا کر دوسروں کے منہ سے کہلوایا کرتا تھا۔ اس کے لیے عذاب عظیم اس لیے کہ دوسرے تمام لوگوں کا گناہ اس کے سر پر بھی تھا، کیونکہ اس نے اس کی ابتدا کی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (مَنْ سَنَّ فِي الإِْسْلَامِ سُنَّۃً سَیِّءَۃً ، کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُھَا وَ وِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہِ ، مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِھِمْ شَيْءٌ) [ مسلم، الزکاۃ، باب الحث علی الصدقۃ ولو بشق تمرۃ۔۔ : 1017 ] ”جو شخص اسلام میں کوئی برا طریقہ جاری کرے اس پر اس کا اپنا گناہ بھی ہوگا اور ان کا گناہ بھی جو اس پر عمل کریں گے، بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی ہو۔“ عذاب عظیم کا مطلب یہ ہے کہ اسے توبہ کی توفیق نہیں ہوگی، وہ کفر پر فوت ہوگا اور آخرت کے عذاب میں مبتلا ہوگا، جو ”اَلدَّرْکُ الْأَسْفَلُ مِنَ النَّارِ“ ہے۔ [ أَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہُ ] اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اس جماعت کے دوسرے لوگوں کو توبہ کی توفیق عطا ہوگی۔
Top