Al-Quran-al-Kareem - An-Noor : 2
اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ١۪ وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ۚ وَ لْیَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
اَلزَّانِيَةُ : بدکار عورت وَالزَّانِيْ : اور بدکار مرد فَاجْلِدُوْا : تو تم کوڑے مارو كُلَّ وَاحِدٍ : ہر ایک کو مِّنْهُمَا : ان دونوں میں سے مِائَةَ جَلْدَةٍ : سو کوڑے وَّلَا تَاْخُذْكُمْ : اور نہ پکڑو (نہ کھاؤ) بِهِمَا : ان پر رَاْفَةٌ : مہربانی (ترس) فِيْ : میں دِيْنِ اللّٰهِ : اللہ کا حکم اِنْ : اگر كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ : تم ایمان رکھتے ہو بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور یوم آخرت وَلْيَشْهَدْ : اور چاہیے کہ موجود ہو عَذَابَهُمَا : ان کی سزا طَآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنَ : سے۔ کی الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مسلمان
جو زنا کرنے والی عورت ہے اور جو زنا کرنے والا مرد ہے، سو دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور تمہیں ان کے متعلق اللہ کے دین میں کوئی نرمی نہ پکڑے، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور لازم ہے کہ ان کی سزا کے وقت مومنوں کی ایک جماعت موجود ہو۔
اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا۔۔ : سورة نساء کی آیات (15، 16) میں اللہ تعالیٰ نے زنا کرنے والی عورتوں کے متعلق چار مردوں کی گواہی کے بعد انھیں گھروں میں بند رکھنے کا حکم دیا، یہاں تک کہ انھیں موت اٹھا لے جائے، یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی سبیل پیدا فرما دے۔ اسی طرح زنا کا ارتکاب کرنے والے مرد اور عورت کو توبہ کرنے تک ایذا و تکلیف دینے کا حکم دیا اور یہاں سورة نور کی زیر تفسیر آیت میں اللہ تعالیٰ نے کنوارے مرد اور کنواری عورت کی سزا بیان فرمائی۔ جیسا کہ عبادہ ابن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (خُذُوْا عَنِّيْ ، خُذُوْا عَنِّيْ ، قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلاً ، الْبِکْرُ بالْبِکْرِ جَلْدُ ماءَۃٍ وَ نَفْيُ سَنَۃٍ وَالثَّیِّبُ بالثَّیِّبِ جَلْدُ ماءَۃٍ وَالرَّجْمُ) [ مسلم، الحدود، باب حد الزنٰی : 1690 ] ”مجھ سے (دین کے احکام) لے لو، مجھ سے (دین کے احکام) لے لو، اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لیے سبیل پیدا فرما دی ہے۔ کنوارا، کنواری کے ساتھ (زنا کرے) تو ان کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے اور شادی شدہ، شادی شدہ کے ساتھ (زنا کرے) تو ان کے لیے سو کوڑے اور سنگسار ہے۔“ اس آیت سے بالاتفاق سورة نساء کی آیت کا حکم منسوخ ہوگیا۔ اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ : یہ مبتدا ہے، اس کی خبر ”فَاجْلِدُوْا“ ہے۔ اس پر ”فاء“ اس لیے آئی ہے کہ مبتدا میں شرط کا معنی پایا جاتا ہے، کیونکہ الف لام، ”أَلَّذِيْ“ کے معنی میں ہے، یعنی جو زنا کرنے والی عورت اور جو زنا کرنے والا مرد ہے۔ اس آیت میں مسلم حکام کو حکم ہے کہ جو عورت یا جو مرد بھی زنا کا ارتکاب کرے، خواہ وہ کسی دین یا ملت سے تعلق رکھتا ہو، اگر ان کا مقدمہ تمہارے پاس لایا جائے، جب وہ شادی شدہ نہ ہوں تو دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔ شادی شدہ زانیہ اور زانی کے لیے رجم کا حکم ہے، جیسا کہ گزشتہ فائدہ میں مذکور حدیث میں آیا ہے، مزید تفصیل آگے آئے گی۔ 3 غیر مسلم ذمی اگر زنا کا ارتکاب کریں اور مسلم حکام کے پاس مقدمہ لایا جائے تو ان کا فیصلہ بھی کتاب و سنت کے مطابق کیا جائے گا، جیسا کہ سورة مائدہ (48، 49) میں مذکور ہے۔ عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور انھوں نے آپ سے ذکر کیا کہ ان کے ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کیا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (مَا تَجِدُوْنَ فِي التَّوْرَاۃِ فِيْ شَأْنِ الرَّجْمِ ؟) ”تم تورات میں رجم کے متعلق کیا پاتے ہو ؟“ انھوں نے کہا : ”ہم انھیں ذلیل کرتے ہیں اور انھیں کوڑے مارے جاتے ہیں۔“ عبداللہ بن سلام ؓ نے کہا : ”تم نے جھوٹ کہا، تورات میں رجم یقیناً موجود ہے۔“ چناچہ وہ تورات لائے اور اسے کھولا، تو ان میں سے ایک شخص نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ دیا اور جو اس سے پہلے اور اس کے بعد تھا اسے پڑھ دیا۔ عبداللہ بن سلام ؓ نے اس سے کہا : ”ہاتھ اٹھا۔“ اس نے ہاتھ اٹھایا تو اس میں رجم کی آیت موجود تھی، تو کہنے لگے : ”اے محمد ! اس نے سچ کہا ہے، اس میں رجم کی آیت موجود ہے۔“ تو رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کے متعلق حکم دیا اور دونوں کو سنگسار کردیا گیا۔ [ بخاري، الحدود، باب أحکام أہل الذمۃ و إحصانہم إذا زنوا و رفعوا إلی الإمام : 6841 ] امام بخاری ؓ کے باب کے عنوان قائم کرنے سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ اہل ذمہ اگر مقدمہ مسلمانوں کے پاس لائیں تو ان کے لیے بھی زنا کی سزا وہی ہے جو مسلمانوں کے لیے ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں پر بھی رجم کا حکم نافذ فرمایا۔ تفصیل کے لیے فتح الباری ملاحظہ فرمائیں۔ جن روایات میں اس حد کے نفاذ کے لیے اسلام کی شرط آئی ہے، ان میں سے کوئی بھی رسول اللہ ﷺ سے صحیح سند سے ثابت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں ذمی غیر مسلموں کو بیشک اپنے دین پر عمل کرنے کی آزادی ہے، مگر انھیں بےحیائی اور بدکاری پھیلانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ”اَلزَّانِيَةُ“ کو ”وَالزَّانِيْ“ سے پہلے لانے میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ عموماً زنا کی ترغیب عورتوں کی طرف سے ہوتی ہے، اگر ان کی طرف سے کوئی اشارہ یا مسکراہٹ یا بےحجابی یا کلام میں دلکشی نہ ہو تو مرد کو اقدام کی جرأت کم ہی ہوتی ہے۔ اسامہ ابن زید ؓ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا : (مَا تَرَکْتُ بَعْدِيْ فِتْنَۃً أَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ) [ بخاري، النکاح، باب ما یتقي من شؤم المرأۃ : 5096 ] ”میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ نقصان پہنچانے والا کوئی فتنہ نہیں چھوڑا۔“ اس کے علاوہ زنا کی قباحت اور اس کی عار عورتوں کے لیے زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ بکارت اور حمل کے مسائل کا سامنا انھی کو ہوتا ہے۔ ”فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا“ اس لیے فرمایا کہ زنا کی ترغیب عورت کی طرف سے ہو یا مرد کی طرف سے، سزا دونوں کو ایک جیسی ملے گی۔ فَاجْلِدُوْا : ”جِلْدٌ“ کا معنی چمڑا ہے۔ اس لفظ سے فقہاء نے دو مسائل اخذ کیے ہیں، ایک یہ کہ مارنے کے لیے کوڑا چمڑے کا ہونا چاہیے، جو درمیانہ ہو، نہ بہت سخت نہ بالکل نرم۔ دوسرا یہ کہ ضرب یعنی مار کا اثر جلد تک رہنا چاہیے، ایسی ضرب نہ ہو جس سے گوشت پھٹ جائے، اور یہ کوڑے چہرے اور نازک حصوں کو چھوڑ کر جسم کے الگ الگ حصوں پر مارے جائیں نہ کہ ایک ہی جگہ، اور پوری طاقت سے ہاتھ بلند کرکے نہیں بلکہ ہاتھ کندھے سے بلند کیے بغیر درمیانی ضرب لگائی جائے۔ زمخشری نے فرمایا : ”اَلْجِلْدُ“ کا معنی جلد پر ضرب ہے، چناچہ ”جَلَدَہُ“ (اس نے اس کی جلد پر مارا) ایسے ہی ہے جیسے ”ظَہَرَہُ“ (اس نے اس کی پشت پر مارا) ، ”بَطَنَہُ“ (اس نے اس کے پیٹ پر مارا) اور ”رَأَسَہُ“ (اس نے اس کے سر پر مارا)۔ آج کل حکومتیں جلادوں کے ہاتھوں جس قسم کے کوڑے مرواتی ہیں، جن کے لیے جلادوں کو باقاعدہ مشق کروائی جاتی ہے کہ وہ ایک ہی جگہ پڑیں، پھر ملزم کو ٹکٹکی پر باندھ کر اس کے چوتڑوں پر اس طرح کوڑے برسائے جاتے ہیں کہ جلاد دور سے دوڑتا ہوا آ کر پوری قوت سے کوڑا مارتا ہے، ایک ہی جگہ چند کوڑے لگنے کے بعد گوشت کے ٹکڑے اڑنے لگتے ہیں، حتیٰ کہ بعض اوقات ہڈیاں ننگی ہوجاتی ہیں اور وہ ساری عمر کے لیے روگی بن جاتا ہے۔ اسلام میں ایسے کوڑے مارنے کی وحشیانہ سزا کسی بھی جرم میں مقرر نہیں کی گئی، بلکہ اگر زنا کا ارتکاب ایسے کنوارے شخص سے ہو جو سو کوڑے برداشت نہ کرسکتا ہو تو اس کے لیے رعایت بھی موجود ہے۔ سعید بن سعد بن عبادہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے محلے میں ایک ناقص اعضا والا کمزور آدمی تھا، اسے دیکھا گیا کہ محلے کی ایک لونڈی سے بدکاری کر رہا تھا۔ سعد بن عبادہ ؓ نے اس کا معاملہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کیا تو آپ نے فرمایا : ”اسے سو کوڑے مارو۔“ لوگوں نے کہا : ”یا رسول اللہ ! وہ اس سے کمزور ہے، اگر ہم نے اسے سو کوڑے مارے تو وہ مرجائے گا۔“ آپ ﷺ نے فرمایا : (فَخُذُوْا لَہُ عِثْکَالًا، فِیْہِ ماءَۃُ شِمْرَاخٍ ، فَاضْرِبُوْہُ ضَرْبَۃً وَاحِدَۃً) [ ابن ماجہ، الحدود، باب الکبیر والمریض یجب علیہ الحد : 2574 ]”پھر کھجور کا ایک خوشہ لو، جس میں سو ٹہنیاں ہوں اور وہ اسے ایک ہی بار مار دو۔“ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ۔۔ : کیونکہ بدکاروں پر رحم کرنا سارے اسلامی معاشرے پر ظلم ہے۔ پہلی امتوں پر حدود الٰہی میں نرمی ہی سے تباہی آئی۔ حدود اللہ کا احترام اور نفاذ باقی نہ رہے تو قوم اندرونی خلفشار اور جرائم میں مبتلا ہوجاتی ہے اور ان پر وبائیں ٹوٹ پڑتی ہیں۔ ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : (یَا مَعْشَرَ الْمُھَاجِرِیْنَ ! خَمْسٌ إِذَا ابْتُلِیْتُمْ بِھِنَّ ، وَ أَعُوْذُ باللّٰہِ أَنْ تُدْرِکُوْھُنَّ : لَمْ تَظْھَرِ الْفَاحِشَۃُ فِيْ قَوْمٍ قَطُّ ، حَتّٰی یُعْلِنُوْا بِھَا، إِلَّا فَشَا فِیْھِمُ الطَّاعُوْنُ وَالْأَوْجَاعُ الَّتِيْ لََمْ تَکُنْ مَضَتْ فِيْ أَسْلَافِھِمُ الَّذِیْنَ مَضَوْا، وَلَمْ یَنْقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ ، إِلَّا أُخِذُوْا بالسِّنِیْنَ وَ شِدَّۃِ الْمَؤُوْنَۃِ وَ جَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَیْھِمْ ، وَلَمْ یَمْنَعُْوْا زَکَاۃَ أَمْوَالِھِمْ ، إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَاءِ ، وَ لَوْ لَا الْبَھَاءِمُ لَمْ یُمْطَرُوْا وَلَمْ یَنْقُضُوْا عَھْدَ اللّٰہِ وَ عَھْدَ رَسُوْلِہِ ، إِلَّا سَلَّطَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ عَدُوًّا مِنْ غَیْرِھِمْ ، فَأَخَذُوْا بَعْضَ مَا فِيْ أَیْدِیْھِمْ وَمَا لَمْ تَحْکُمْ أَءِمَّتُھُمْ بِکِتَاب اللّٰہِ ، وَ یَتَخَیَّرُوْا مِمَّا أَنْزَلَ اللّٰہُ ، إِلَّا جَعَلَ اللّٰہُ بَأْسَھُمْ بَیْنَھُمْ) [ ابن ماجہ، الفتن، باب العقوبات : 4019۔ مستدرک حاکم : 4؍540، ح : 8623، و قال صحیح علی شرط مسلم۔ صحیح الترغیب و الترہیب : 2187 ] ”اے مہاجرین کی جماعت ! پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہوگئے (تو ان کی سزا ضرور ملے گی) اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ تم انھیں پاؤ، کسی قوم میں جب بھی فحاشی (بےحیائی و بدکاری) عام ہوتی ہے، جو ان میں علانیہ کی جائے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے پہلے گزرے ہوئے لوگوں میں نہیں ہوتی تھیں اور جو بھی قوم ماپ اور تول میں کمی کرتی ہے انھیں قحط سالیوں، مشقت کی سختی اور بادشاہ کے ظلم کے ساتھ پکڑ لیا جاتا ہے اور کوئی بھی قوم اپنے مالوں کی زکوٰۃ دینا چھوڑ دیتی ہے تو ان کے لیے آسمان سے بارش روک لی جاتی ہے اور اگر چوپائے نہ ہوں تو بارش سرے ہی سے نہ ہو اور جب کوئی قوم اللہ اور اس کے رسول کا عہد توڑتی ہے تو ان پر دوسری قوموں میں سے دشمن مسلط کردیے جاتے ہیں جو ان کے قبضے سے کئی چیزیں چھین لیتے ہیں اور جن کے امراء اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے اور جو اللہ نے اتارا ہے اسے اختیار نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کی لڑائی آپس میں ڈال دیتا ہے۔“ یہ نتیجہ حدود اللہ کو معطل کرنے کا ہے، جب کہ حدود اللہ قائم کرنے سے بےحساب برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ دیکھیے سورة مائدہ (66) اور سورة اعراف (96)۔ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ : اس کا یہ مطلب نہیں کہ انھیں مارتے وقت تمہارے دل میں ان پر رحم اور شفقت کا کوئی جذبہ پیدا نہ ہو، بلکہ ”فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ“ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حد نافذ کرنے میں تمہاری طرف سے کوئی نرمی یا ترس رکاوٹ نہ بنے۔ رہا مارتے ہوئے، یا یہ منظر دیکھ کر دل میں رحم و شفقت کا کوئی جذبہ پیدا ہونا تو یہ طبعی بات ہے، اس پر آدمی کا کوئی اختیار نہیں اور نہ اس پر کوئی گناہ ہے۔ گناہ یہ ہے کہ ترس کھا کر حد نافذ نہ کی جائے، یا ترس کھا کر حد نہ لگانے کی سفارش کی جائے، یا اس قدر آہستہ کوڑے مارے جائیں کہ حد کا مقصد ہی فوت ہوجائے۔ قرہ مزنی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا : ”یا رسول اللہ ! میں بکری ذبح کرتا ہوں تو میں اس پر رحم کرتا ہوں۔“ آپ ﷺ نے فرمایا : (وَالشَّاۃُ إِنْ رَحِمْتَھَا رَحِمَکَ اللّٰہُ ، مَرَّتَیْنِ) [ الأدب المفرد للبخاري : 373۔ مسند أحمد : 3؍436، ح : 15598 ] ”اور بکری پر اگر تو رحم کرے گا تو اللہ تجھ پر رحم کرے گا۔“ یہ الفاظ آپ نے دو مرتبہ فرمائے۔“ 3 وہ جرم، جس کی حد اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہے، وہ حاکم کے پاس لے جانے سے پہلے آپس میں معاف کیا جاسکتا ہے، حاکم کے پاس مقدمہ پیش ہونے کے بعد نہ سفارش کی اجازت ہے، نہ حاکم کو حد معاف کرنے کا اختیار ہے۔ عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (تَعَافَوُا الْحُدُوْدَ فِیْمَا بَیْنَکُمْ فَمَا بَلَغَنِيْ مِنْ حَدٍّ فَقَدْ وَجَبَ) [أبوداوٗد، الحدود، باب یعفی عن الحدود۔۔ : 4376۔ نساءي : 4890، قال الألباني صحیح ] ”حدود کو آپس میں ایک دوسرے کو معاف کردیا کرو، کیونکہ میرے پاس جو بھی حد آئے گی واجب ہوجائے گی۔“ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ قریش کو مخزومی عورت کے معاملے نے فکر میں ڈال دیا، جس نے چوری کی تھی، کہنے لگے : ”رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق کون بات کرے ؟ اور رسول اللہ ﷺ کے پیارے اسامہ بن زید کے سوا کون یہ جرأت کرے گا۔“ تو اسامہ نے رسول اللہ ﷺ سے بات کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : (أَتَشْفَعُ فِيْ حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ ؟ ثُمَّ قَامَ فَخَطَبَ ، فَقَالَ : یَا أَیُّھَا النَّاسُ ! إِنَّمَا ضَلَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ أَنَّھُمْ کَانُوْا إِذَا سَرَقَ الشَّرِیْفُ تَرَکُوْہُ ، وَ إِذَا سَرَقَ الضَّعِیْفُ فِیْھِمْ أَقَامُوْا عَلَیْہِ الْحَدَّ ، وَایْمُ اللّٰہِ ! لَوْ أَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعَ مُحَمَّدٌ یَدَھَا) [ بخاري، الحدود، باب کراھیۃ الشفاعۃ في الحد إذا رفع إلی السلطان : 6788۔ مسلم : 1688 ] ”کیا تم اللہ کی حدوں میں سے ایک حد کے متعلق سفارش کر رہے ہو ؟“ پھر آپ ﷺ اٹھے اور خطبہ دیا، فرمایا : ”لوگو ! تم سے پہلے لوگ اسی لیے گمراہ ہوگئے کہ جب اونچا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کردیتے۔ اللہ کی قسم ! اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرتی تو یقیناً محمد اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔“ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَاۗىِٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ : اللہ تعالیٰ کی حدود کے دو مقصد ہیں، ایک یہ کہ مجرم کو اس کے جرم کی سزا ملے، دوسرا یہ کہ وہ اس کے لیے اور لوگوں کے لیے عبرت بنے اور وہ اس جرم سے باز رہیں، جیسا کہ فرمایا : (وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَيْدِيَهُمَا جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ) [ المائدۃ : 38 ] ”اور جو چوری کرنے والا ہے اور جو چوری کرنے والی ہے سو دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔ اس کی جزا کے لیے جو ان دونوں نے کمایا، اللہ کی طرف سے عبرت کے لیے اور اللہ سب پر غالب کمال حکمت والا ہے۔“ چور کا کٹا ہوا ہاتھ عبرت کے لیے کافی ہے، یہاں زانی کے لیے حد لگاتے وقت مومنوں کی ایک جماعت موجود ہونے کا حکم دیا، تاکہ باعث عبرت ہو۔ کوڑے مارتے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت کی موجودگی بجائے خود ایک سزا ہے، کیونکہ کوڑوں کی تکلیف تو ختم ہوجاتی ہے مگر رسوائی کا احساس جلدی ختم ہونے والا نہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کے سامنے حد لگانے کی صورت میں اس بات کی گنجائش بھی نہیں رہے گی کہ حد معطل کردی جائے، یا اس میں کمی یا نرمی کی جائے۔ 3 شادی شدہ مرد یا شادی شدہ عورت زنا کرے تو اس کی حد رجم ہے جو قرآن، سنت متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ یہ حکم قرآن مجید میں موجود آیات کے ساتھ بھی ثابت ہے اور قرآن کی اس آیت سے بھی ثابت ہے جس کی تلاوت منسوخ ہے، لیکن اس کا حکم باقی ہے۔ قرآن مجید میں موجود آیت کے ذکر سے پہلے یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ پہلے انبیاء اور ان کی امتوں پر نازل شدہ احکام جو قرآن نے ذکر فرمائے ہیں اور قرآن و سنت میں ان کے منسوخ ہونے کا ذکر نہیں کیا گیا، ان پر عمل ہمارے نبی کریم ﷺ اور آپ کی پوری امت پر فرض ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورة انعام میں اٹھارہ (18) پیغمبروں کا نام لیا اور ان کے آباء اور اولاد و اخوان کا ذکر فرمایا، پھر فرمایا : (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ) [ الأنعام : 90 ] ”یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت دی، سو تو ان کی ہدایت کی پیروی کر۔“ رجم کی سزا کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورة مائدہ میں تورات کے حوالے سے فرمایا ہے : (وَكَيْفَ يُحَكِّمُوْنَكَ وَعِنْدَهُمُ التَّوْرٰىةُ فِيْهَا حُكْمُ اللّٰهِ) [ المائدۃ : 43 ] ”اور وہ تجھے کیسے منصف بنائیں گے جب کہ ان کے پاس تورات ہے جس میں اللہ کا حکم ہے۔“ یہ حکم رجم تھا جیسا کہ مذکورہ بالا آیت کے فوائد میں گزر چکا۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے اسی کے موافق فیصلہ فرمایا اور فرمایا : (اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَوَّلُ مَنْ أَحْیَا أَمْرَکَ إِذْ أَمَاتُوْہُ) ”اے اللہ ! میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرا حکم زندہ کیا، جب انھوں نے اسے مردہ کردیا تھا۔“ مفصل حدیث اس طرح ہے کہ براء بن عازب ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ ایک یہودی کے پاس سے گزرے جس کا منہ کالا کیا ہوا تھا اور اسے کوڑے مارے گئے تھے تو نبی اکرم ﷺ نے انھیں بلایا اور فرمایا : (ھٰکَذَا تَجِدُوْنَ حَدَّ الزَّانِيْ فِيْ کِتَابِکُمْ ؟ قَالُوْا نَعَمْ ، فَدعَا رَجُلًا مِنْ عُلَمَاءِھِمْ ، فَقَالَ أَنْشُدُکَ باللّٰہِ الَّذِيْ أَنْزَلَ التَّوْرَاۃَ عَلٰی مُوْسٰی ! أَھٰکَذَا تَجِدُوْنَ حَدَّ الزَّانِيْ فِيْ کِتَابِکُمْ ؟ قَالَ لَا، وَلَوْ لَا أَنَّکَ نَشَدْتَنِيْ بِھٰذَا لَمْ أُخْبِرْکَ ، نَجِدُہُ الرَّجْمَ ، وَلٰکِنَّہُ کَثُرَ فِيْ أَشْرَافِنَا، فَکُنَّا إِذَا أَخَذْنَا الشَّرِیْفَ تَرَکْنَاہُ ، وَإِذَا أَخَذْنَا الضَّعِیْفَ ، أَقَمْنَا عَلَیْہِ الْحَدَّ ، قُْلْنَا تَعَالَوْا فَلْنَجْتَمِعْ عَلٰی شَيْءٍ نُقِیْمُہُ عَلَی الشَّرِیْفِ وَالْوَضِیْعِ ، فَجَعَلْنَا التَّحْمِیْمَ وَالْجَلْدَ مَکَان الرَّجْمِ ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَوَّلُ مَنْ أَحْیَا أَمْرَکَ إِذْ أَمَاتُوْہُ فَأَمَرَ بِہِ فَرُجِمَ) [ مسلم، الحدود، باب رجم الیہود أہل الذمۃ في الزنٰی : 1700 ] ”کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی حد ایسے ہی پاتے ہو ؟“ انھوں نے کہا : ”ہاں !“ تو آپ ﷺ نے ان کے علماء میں سے ایک آدمی کو بلایا اور فرمایا : ”میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ پر تورات نازل فرمائی، کیا تم اپنی کتاب میں زنا کی حد ایسے ہی پاتے ہو ؟“ اس نے کہا : ”نہیں ! اور اگر آپ مجھے یہ قسم نہ دیتے تو میں آپ کو نہ بتاتا۔ ہم وہ (حد) رجم ہی پاتے ہیں، لیکن یہ کام (زنا) ہمارے بڑے لوگوں میں عام ہوگیا تو ہم جب بڑے کو پکڑتے تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کمزور کو پکڑتے تو اس پر حد قائم کردیتے۔ تو ہم نے کہا، آؤ ہم کسی ایسی سزا پر متفق ہوجائیں جو ہم اونچے لوگوں اور کمزور لوگوں سب پر قائم کریں، تو ہم نے رجم کی جگہ منہ کالا کرنا اور کوڑے مارنا مقرر کردیا۔“ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اے اللہ ! میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرا حکم زندہ کیا جب انھوں نے اسے مردہ کردیا تھا۔“ تو آپ ﷺ نے اس کے متعلق حکم دیا اور اسے رجم کردیا گیا۔“ اس حدیث کے بعد سورة مائدہ کی آیات (41 تا 50) ملاحظہ فرمائیں، رجم اللہ کا حکم ہونا بالکل واضح ہوجائے گا۔ تورات کے اس حکم رجم کو اللہ کا حکم قرار دے کر اس پر عمل ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے اعضا کے قصاص کا ذکر تورات کے حوالے سے فرمایا۔ قرآن میں اعضا کے قصاص کا اس کے سوا کہیں ذکر نہیں، اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے اعضا کے قصاص کا حکم دیا اور امت اعضا کے قصاص پر متفق ہے، فرمایا : (وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيْهَآ اَنَّ النَّفْسَ بالنَّفْسِ ۙوَالْعَيْنَ بالْعَيْنِ وَالْاَنْفَ بالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بالسِّنِّ ۙ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ ۭ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗ ۭ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ) [ المائدۃ : 45 ] ”اور اس میں ہم نے ان پر لکھ دیا کہ جان کے بدلے جان ہے اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور سب زخموں میں برابر بدلا ہے، پھر جو اس (قصاص) کا صدقہ کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔“ مائدہ کی آیت (48) میں قرآن کو پہلی کتابوں پر ”مُھَیْمِناً“ فرمانے سے ایک مقصد یہ بھی ظاہر ہے کہ شادی شدہ زانی کے رجم اور نفس اور اعضا کے قصاص کا مسئلہ اب قرآن کے زیر حفاظت ہے۔ 3 قرآن کی وہ آیت جس میں رجم کا صریح حکم تھا اور جس کی تلاوت منسوخ اور حکم باقی ہے، اس کا ذکر امیر المومنین عمر بن خطاب ؓ نے منبر پر نہایت شدّ و مد سے فرمایا، جب آپ کو فکر ہوئی کہ کچھ لوگ قرآن میں رجم کا صریح لفظ نہیں دیکھیں گے تو اس کا انکار کردیں گے (جیسا کہ خارجیوں نے اور ہمارے زمانے کے کچھ آزاد خیال لوگوں نے کیا ہے) تو اس کے ساتھ ہی رسول اللہ ﷺ ، ابوبکر ؓ اور اپنے عمل کا حوالہ بھی دیا۔ ابن عباس ؓ سے عمر بن خطاب ؓ کا خطبہ مروی ہے، جو انھوں نے اپنے آخری حج سے واپس آ کر مدینہ میں دیا۔ اس میں مذکور ہے کہ انھوں نے فرمایا : (إِنَّ اللّٰہَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ بالْحَقِّ ، وَ أَنْزَلَ عَلَیْہِ الْکِتَابَ ، فَکَانَ مِمَّا أَنْزَلَ اللّٰہُ آیَۃُ الرَّجْمِ فَقَرَأْنَاھَا وَ عَقَلْنَاھَا وَ وَعَیْنَاھَا، رَجَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ وَ رَجَمْنَا بَعْدَہُ ، فَأَخْشَی إِنْ طَال بالنَّاسِ زَمَانٌ أَنْ یَّقُوْلَ قَاءِلٌ، وَاللّٰہِ ! مَا نَجِدُ آیَۃَ الرَّجْمِ فِيْ کِتَاب اللّٰہِ ، فَیَضِلُّوْا بِتَرْکِ فَرِیْضَۃٍ أَنْزَلَھَا اللّٰہُ ، وَالرَّجْمُ فِيْ کِتَاب اللّٰہِ حَقٌّ عَلٰی مَنْ زَنٰی إِذَا أُحْصِنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ ، إِذَا قَامَتِ الْبَیِّنَۃُ ، أَوْ کَانَ الْحَبَلُ ، أَوِ الْاِعْتِرَافُ) [ بخاري، الحدود، باب رجم الحبلٰی من الزنا إذا أحصنت : 6830 ] ”اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو حق دے کر بھیجا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ پر جو کچھ نازل فرمایا اس میں رجم کی آیت بھی تھی، ہم نے اسے پڑھا، سمجھا اور یاد کرلیا۔ رسول اللہ ﷺ نے رجم کیا اور آپ ﷺ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا۔ میں ڈرتا ہوں کہ اگر لوگوں پر لمبا زمانہ گزر گیا تو کوئی کہنے والا کہے کہ اللہ کی قسم ! ہم اللہ کی کتاب میں رجم کو نہیں پاتے، تو وہ اس فریضہ کو ترک کرنے کی وجہ سے گمراہ ہوجائیں جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے۔ رجم اللہ کی کتاب میں حق ہے اس شخص پر جو شادی شدہ ہو، مرد ہو یا عورت، جب دلیل قائم ہوجائے، یا حمل ہو یا اعتراف ہو۔“ 3 رسول اللہ ﷺ سے کئی احادیث میں رجم کا حکم منقول ہے، جیسا کہ زیر تفسیر آیت کے فائدہ (1) میں گزرا اور آپ ﷺ کا ماعز اسلمی اور غامدیہ کو رجم کرنا تقریباً حدیث کی ہر کتاب میں مذکور ہے، اسی طرح یہود کو رجم کرنا فائدہ (3) اور فائدہ (10) میں گزرا ہے۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کا رجم کو اللہ کی کتاب کا فیصلہ قرار دے کر اس پر عمل کرنا صحیح بخاری میں مروی ہے، ابوہریرہ اور زید بن خالد ؓ نے بیان کیا کہ ہم نبی ﷺ کے پاس موجود تھے کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا : (أَنْشُدُکَ اللّٰہَ إِلَّا مَا قَضَیْتَ بَیْنَنَا بِکِتَاب اللّٰہِ) ”میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ آپ ہر حال میں ہمارے درمیان کتاب اللہ کے ساتھ فیصلہ فرمائیں۔“ تو وہ شخص کھڑا ہوگیا جس سے اس کا جھگڑا تھا اور وہ اس سے زیادہ سمجھ دار تھا۔ اس نے کہا : ”آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب کے ساتھ فیصلہ فرمائیں اور مجھے (بات کرنے کی) اجازت دیں۔“ آپ ﷺ نے فرمایا : ”کہو !“ اس نے کہا : ”میرا بیٹا اس کے ہاں مزدور تھا تو اس نے اس کی بیوی سے زنا کرلیا، میں نے اس کے بدلے سو بکریاں اور ایک خادم دے کر اس کی جان چھڑائی۔ پھر میں نے کچھ اہل علم آدمیوں سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ میرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور اس کی بیوی پر رجم ہے۔“ تو نبی ﷺ نے فرمایا : (وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ لَأَقْضِیَنَّ بَیْنَکُمَا بِکِتَاب اللّٰہِ جَلَّ ذِکْرُہُ ، الْمِاءَۃُ شَاۃٍ وَالْخَادِمُ رَدٌّ عَلَیْکَ ، وَعَلَی ابْنِکَ جَلْدُ ماءَۃٍ وَ تَغْرِیْبُ عَامٍ ، وَاغْدُ یَا أُنَیْسُ ! عَلَی امْرَأَۃِ ھٰذَا، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْھَا، فَغَدَا عَلَیْھَا فَاعْتَرَفَتْ فَرَجَمَھَا) [ بخاري، الحدود، باب الاعتراف بالزنا : 6827، 6828 ] ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں ضرور تمہارے درمیان اللہ جل ذکرہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ وہ سو بکریاں اور خادم تمہیں واپس ہوں گے اور تیرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے، اور اے انیس ! صبح اس کی بیوی کے پاس جاؤ، اگر وہ اعتراف کرلے، تو اسے رجم کر دو۔“ وہ صبح اس کے پاس گئے، اس نے اعتراف کرلیا تو انھوں نے اسے رجم کردیا۔“ 3 امت مسلمہ میں کچھ لوگوں نے رجم کا انکار کیا۔ بعض نے کوڑوں اور رجم بلکہ تمام حدود ہی کو وحشیانہ سزائیں قرار دے کر ان کا انکار کردیا۔ ایسے لوگوں کو امت مسلمہ بدترین منافق ہی کے طور پر پہچانتی ہے کہ جب وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کو وحشیانہ قرار دیتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اسلام کا لبادہ انھوں نے مسلمانوں میں شامل رہ کر کفر کی نمائندگی کے لیے اوڑھ رکھا ہے۔ اس لیے ان کے نفاق کا علم عام ہونے کی وجہ سے یہ لوگ اسلام کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکے، بلکہ مسلمان ہمیشہ اس انتظار میں ہیں اور دعائیں کرتے ہیں کہ کب وہ مبارک وقت آئے گا جب عہد نبوی اور خلافت راشدہ کی طرح اللہ کی حدود قائم ہوں گی اور معاشرے میں امن و امان اور عفت و پاک دامنی کا دور دورہ ہوگا۔ 3 اللہ کی حدود کو اصل نقصان ان لوگوں نے پہنچایا اور انھی کے ہم نواؤوں کے برسر اقتدار ہونے کی وجہ سے اللہ کی حدود معطل ہوئیں، جنھوں نے اگرچہ حدود اللہ کا انکار نہیں کیا، نہ کنوارے زانی کے لیے کوڑوں کی حد کا اور نہ شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی حد کا، مگر انھوں نے ایسے حیلے ایجاد کرلیے جن سے کسی زانی پر (کنوارا ہو یا شادی شدہ) حد نافذ کرنا تقریباً ناممکن ہے اور لطف یہ کہ ان لوگوں کے موجودہ ہم نوا ان فقہی قوانین کو اللہ کا حکم قرار دینے پر اور انھیں بطور اسلام ملک میں نافذ کرنے پر مُصِر ہیں۔ ہم ان میں سے چند شقیں یہاں نقل کرتے ہیں : 1 اجرت پر لائی ہوئی عورت سے زنا کرے تو اس پر حد نہیں۔ 2 دار الحرب اور دار البغی میں زنا کرے تو اس پر حد نہیں۔ 3 جن عورتوں سے نکاح حرام ہے (ماں، بہن، بیٹی، خالہ، پھوپھی، بھانجی اور بھتیجی وغیرہ) ان سے نکاح کرکے زنا کرے تو اس پر حد نہیں، خواہ اسے معلوم ہو کہ یہ حرام ہے۔ 4 جس حکمران کے اوپر کوئی حکمران نہ ہو وہ زنا کرے تو اس پر حد نہیں۔ 5 اگر زانی دعویٰ کر دے کہ وہ اس کی بیوی ہے تو حد ساقط ہوجائے گی، خواہ وہ کسی اور کی بیوی ہو اور وہ کوئی دلیل بھی پیش نہ کرے۔ یہ ہیں ان کے چند حیلے، تو فرمائیے ! وہ کون سا زانی ہوگا جو جھوٹا دعویٰ کرکے حد سے جان نہیں بچائے گا ؟
Top