بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Quran-al-Kareem - Al-Furqaan : 1
تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَاۙ
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا الَّذِيْ : وہ جو۔ جس نَزَّلَ الْفُرْقَانَ : نازل کیا فرق کرنیوالی کتاب (قرآن) عَلٰي عَبْدِهٖ : اپنے بندہ پر لِيَكُوْنَ : تاکہ وہ ہو لِلْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کے لیے نَذِيْرَۨا : ڈرانے والا
بہت برکت والا ہے وہ جس نے اپنے بندے پر فیصلہ کرنے والی (کتاب) اتاری، تاکہ وہ جہانوں کے لیے ڈرانے والا ہو۔
تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں سب سے پہلے توحید پر کلام فرمایا، کیونکہ وہ سب سے پہلے اور سب سے اہم ہے، پھر نبوت پر، کیونکہ وہ رب اور بندے کے درمیان واسطہ ہے، پھر قیامت پر، کیونکہ وہ خاتمہ ہے۔ (شوکانی) ”تَبٰرَكَ“ ”بَرَکَۃٌ“ سے باب تفاعل ہے، ”بَرَکَۃٌ“ کا اشتقاق ”بِرْکَۃٌ“ (حوض) سے ہے کہ اس میں بہت زیادہ پانی ہوتا ہے، یا ”بَرَکَ الإِْبِلُ“ سے ہے، جس کا معنی اونٹ کا بیٹھنا ہے۔ باب تفاعل میں مبالغہ پایا جاتا ہے، اسی مناسبت سے اس کا ترجمہ ”بہت برکت والا ہے“ کیا گیا ہے۔ برکت سے مراد خیر میں زیادہ ہونا، بڑھا ہوا ہونا، دائمی خیر والا ہونا ہے۔ یعنی وہ خیر اور بھلائی میں ساری کائنات سے بےانتہا بڑھا ہوا ہے۔ بلندی، بڑائی، احسان، غرض ہر لحاظ سے اس کی ذات بیحد و حساب خوبیوں اور بھلائیوں کی جامع ہے۔ یاد رہے ”تَبٰرَكَ“ کا لفظ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے آتا ہے، کسی اور میں یہ خوبی نہیں۔ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ : ”نَزَّلَ“ میں تکرار کا معنی پایا جاتا ہے، یعنی تھوڑا تھوڑا کرکے نازل فرمایا۔ اس کی حکمت آگے آیت (32) میں آرہی ہے۔ قرآن کو ”الْفُرْقَانَ“ کہا ہے، یعنی یہ اپنے احکام کے ذریعے سے حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا ہے اور اسی لفظ کی بنا پر اس سورت کا نام ”الفرقان“ رکھا گیا ہے۔ عَلٰي عَبْدِهٖ : دیکھیے سورة بنی اسرائیل کی پہلی آیت کی تفسیر۔ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨا : اس میں آپ پر قرآن نازل کرنے کی حکمت بیان فرمائی ہے۔ سارے جہانوں سے مراد قیامت تک تمام جن و انس ہیں، اس لیے کہ آپ ﷺ کی بعثت ان سب کے لیے ہے، کوئی دوسرا رسول دنیا میں ایسا نہیں آیا۔ یہ مضمون قرآن مجید میں کئی مقامات پر بیان ہوا ہے۔ دیکھیے سورة اعراف (158) ، انعام (19) ، سبا (28) اور احزاب (40) عرب اور اہل کتاب کی صراحت کے لیے دیکھیے آل عمران (20) جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (أُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَھُنَّ أَحَدٌ مِنَ الْأَنْبِیَاءِ قَبْلِیْ۔۔ وَ کَان النَّبِيُّ یُبْعَثُ إِلٰی قَوْمِہِ خَاصَّۃً وَ بُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ کَافَّۃً) [ بخاري، الصلاۃ، باب قول النبي ﷺ : جعلت لي الأرض۔۔ : 438 ] ”مجھے پانچ چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے انبیاء میں سے کسی کو نہیں دی گئیں۔۔ (ان میں سے ایک یہ ہے کہ) پہلے نبی خاص اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا جبکہ مجھے تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا۔“ 3 یہاں رسول اللہ ﷺ کے صرف ”نذیر“ ہونے کا ذکر فرمایا، کیونکہ آگے کفار کے اقوال و احوال اور ان کے انجام کا ذکر ہے، اس کے مناسب ڈرانا ہی ہے۔ نذارت و بشارت دونوں کا اکٹھا ذکر آگے آ رہا ہے، فرمایا : (وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا) [ الفرقان : 56 ] ”اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر۔“
Top