Al-Quran-al-Kareem - Al-Furqaan : 68
وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَ١ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًاۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو لَا يَدْعُوْنَ : نہیں پکارتے مَعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ اِلٰهًا اٰخَرَ : کوئی معبود وَلَا يَقْتُلُوْنَ : اور وہ قتل نہیں کرتے النَّفْسَ : جان الَّتِيْ حَرَّمَ : جسے حرام کیا اللّٰهُ : اللہ اِلَّا بالْحَقِّ : مگر جہاں حق ہو وَلَا يَزْنُوْنَ : اور وہ زنا نہیں کرتے وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے گا ذٰلِكَ : یہ يَلْقَ اَثَامًا : وہ دو چار ہوگا بڑی سزا
اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ اس جان کو قتل کرتے ہیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ کرے گا وہ سخت گناہ کو ملے گا۔
وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ : یہ عباد الرحمن کی صفات کی ایک اور قسم ہے، یعنی ان برائیوں اور کمینگیوں سے پاک ہونا جو مشرکین میں پائی جاتی ہیں اور عباد الرحمان ایمان کی وجہ سے ان سے محفوظ رہتے ہیں۔ یہاں ان کے تین بڑی برائیوں سے بچے رہنے کا ذکر فرمایا، یعنی شرک، قتل ناحق اور زنا۔ اگرچہ کبیرہ گناہ اور بھی بہت سے ہیں، مگر عرب کے معاشرے میں اس وقت زیادہ تسلط انھی تین گناہوں کا تھا، اس لیے مسلمانوں کی اس خصوصیت کو نمایاں کیا گیا، اس سے مشرکین پر چوٹ بھی مقصود ہے کہ وہ اتنی نمایاں برائیوں میں مبتلا ہیں جن کی برائی ہر عقل سلیم پر واضح ہے۔ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ : مراد ہر انسانی جان ہے، کیونکہ کسی بھی انسانی جان کا قتل اللہ نے حرام کیا ہے۔ اِلَّا بالْحَقِّ : جیسے جان کے بدلے جان، شادی شدہ زانی کا رجم، مرتد کو قتل کرنا، جنگ میں کافر کو قتل کرنا اور مسلم یا غیر مسلم محارب کو قتل کرنا، یہ سب صورتیں ”اِلَّا بالْحَقِّ“ کے تحت آتی ہیں۔ یہ تینوں گناہ اسی ترتیب کے ساتھ ایک حدیث میں بھی مذکور ہیں، عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے پوچھا گیا : ”کون سا گناہ سب بڑا ہے ؟“ فرمایا : ”یہ کہ تم کسی کو اللہ کا شریک قرار دو ، حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا فرمایا۔“ سائل نے کہا : ”پھر کون سا ؟“ فرمایا : ”یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس اندیشے سے قتل کر دو کہ وہ تمہارے ساتھ کھانے میں شریک ہوگی۔“ اس نے کہا : ”پھر کون سا ؟“ فرمایا : ”یہ کہ تم اپنے ہمسائے کی بیوی کی رضا سے اس کے ساتھ زنا کرو۔“ تو اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت اتار دی : (وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ) [ الفرقان : 68 ] [ بخاری، الأدب، باب قتل الولد۔۔ : 6001 ] وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا : ”اَثَامًا“ ”إِثْمٌ“ میں الف کے اضافے سے معنی میں اضافہ ہوگیا، ”سخت گناہ۔“ اس کا معنی گناہ کی جزا بھی آتا ہے، یعنی سخت گناہ کی سزا پائے گا۔ ابن کثیر میں ہے کہ عبداللہ بن عمرو ؓ نے فرمایا : ”اثام جہنم میں ایک وادی ہے۔“ دکتور حکمت بن بشیر نے فرمایا : ”اسے طبری نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔“
Top