Al-Quran-al-Kareem - Ash-Shu'araa : 155
قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّ لَكُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍۚ
قَالَ : اس نے فرمایا هٰذِهٖ : یہ نَاقَةٌ : اونٹنی لَّهَا : اس کے لیے شِرْبٌ : پانی پینے کی باری وَّلَكُمْ : اور تمہارے لیے شِرْبُ : بایک باری پانی پینے کی يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ : معین دن
اس نے کہا یہ ایک اونٹنی ہے، اس کے لیے پانی پینے کی ایک باری ہے اور تمہارے لیے ایک مقرر دن کی باری ہے۔
قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے اس اونٹنی کو ”آیَۃٌ بَیِّنَۃٌ“ اور ”آیَۃٌ مُبْصِرَۃٌ“ (واضح نشانی و معجزہ) قرار دیا ہے۔ دیکھیے سورة اعراف (73) ، ہود (64) اور بنی اسرائیل (59) اس سے معلوم ہوا کہ وہ عام قسم کی اونٹنی نہ تھی بلکہ اس کی پیدائش اور ظاہر ہونے میں ضرور کوئی ایسی بات تھی جس کی بنا پر اسے معجزہ قرار دیا گیا۔ ”الصحیح المسبور“ میں ہے کہ ابن حبان نے صحیح سند کے ساتھ ابوطفیل عامر بن واثلہ ؓ سے روایت کی ہے : ”صالح ؑ نے انھیں فرمایا، نکلو ! تو وہ ایک چٹان کی طرف نکلے، وہ چٹان اس طرح لرزی جس طرح حاملہ اونٹنی کو درد زہ ہوتا ہے، پھر وہ پھٹی اور اس کے درمیان سے اونٹنی نکلی تو صالح ؑ نے ان سے کہا : (وَيٰقَوْمِ هٰذِهٖ نَاقَــةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰيَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِيْٓ اَرْضِ اللّٰهِ وَلَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْۗءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيْبٌ) [ ہود : 64 ] ”یہ اللہ کی اونٹنی ہے، تمہارے لیے عظیم نشانی، پس اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسے کوئی تکلیف نہ پہنچاؤ، ورنہ تمہیں ایک قریب عذاب پکڑ لے گا۔“ اگرچہ اس روایت کی سند صحیح ہے مگر یہ صحابی کا قول ہے۔ ابن کثیر ؓ لکھتے ہیں : ”قوم کے بڑے بڑے سردار جمع ہوئے اور انھوں نے ایک چٹان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صالح ؑ سے مطالبہ کیا کہ اس چٹان سے ہمارے دیکھتے دیکھتے ایک پوری جسامت کی اونٹنی نکالو، جس کی یہ یہ صفات ہوں۔ صالح ؑ نے ان سے پختہ عہد لیا کہ اگر ان کی فرمائش پوری کردی جائے تو وہ ایمان لا کر ان کی پیروی اختیار کریں گے۔ جب انھوں نے قول دے دیا تو صالح ؑ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کے لیے کھڑے ہوئے کہ ان کی فرمائش پوری کردی جائے، چناچہ وہ چٹان جس کی طرف انھوں نے اشارہ کیا تھا، یکایک پھٹی اور اس میں سے ان کی مطلوبہ صفات کی اونٹنی ظاہر ہوئی، اسے دیکھ کر کچھ لوگ ایمان لے آئے، لیکن اکثر اپنے کفر پر جمے رہے، اس پر صالح ؑ نے ان سے فرمایا : (قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ) [ ھود : 64 ] ”یہ اللہ کی اونٹنی ہے، تمہارے لیے عظیم نشانی، پس اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسے کوئی تکلیف نہ پہنچاؤ، ورنہ تمہیں ایک قریب عذاب پکڑ لے گا۔“ مفسر مراغی لکھتے ہیں : ”اس قسم کی روایات کو سچا ماننا ہم پر اسی وقت لازم ہے جب وہ صحیح خبروں سے ثابت ہوں۔“ مطلب یہ ہے کہ یہ روایات رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں ہیں، تاہم اس میں شک نہیں کہ وہ عام اونٹنی نہ تھی بلکہ معجزانہ شان رکھنے والی اونٹنی تھی۔ اس اونٹنی کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے مروی ایک صحیح حدیث مسند احمد کے حوالے سے سورة اعراف (73) میں گزر چکی ہے۔ لَّهَا شِرْبٌ وَّلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ : قرآن کی دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم کو صرف اتنا حکم نہ تھا کہ ہر دوسرے روز یہ اونٹنی تمہارے سارے علاقے کا پانی پیے گی، بلکہ یہ حکم بھی تھا کہ یہ تمہارے کھیتوں اور باغوں میں جہاں چاہے گی جائے گی اور جو چاہے گی کھائے گی، اسے کوئی نقصان نہ پہنچانا۔ دیکھیے سورة اعراف (73) اور ہود (64)۔
Top