Al-Quran-al-Kareem - Ash-Shu'araa : 166
وَ تَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ١ؕ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ
وَتَذَرُوْنَ : اور تم چھوڑتے ہو مَا خَلَقَ : جو اس نے پیدا کیا لَكُمْ : تمہارے لیے رَبُّكُمْ : تمہارا رب مِّنْ : سے اَزْوَاجِكُمْ : تمہاری بیویاں بَلْ : بلکہ اَنْتُمْ : تم قَوْمٌ : لوگ عٰدُوْنَ : حد سے بڑھنے والے
اور انھیں چھوڑ دیتے ہو جو تمہارے رب نے تمہارے لیے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں، بلکہ تم حد سے گزرنے والے لوگ ہو۔
وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ۔۔ : اس آیت کے بھی دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے جو بیویاں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے پیدا کی ہیں انھیں چھوڑ کر مردوں کے پاس جاتے ہو۔ اس صورت میں ”مَا“ بیانیہ ہے، ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ تمہاری بیویوں میں سے جو کچھ تمہارے رب نے تمہارے لیے پیدا کیا ہے اسے چھوڑ دیتے ہو ؟ یعنی قبل کے بجائے غیر فطری وضع سے شہوت پوری کرتے ہو۔ اس صورت میں ”مَا“ تبعیض کے لیے ہے۔ بعید نہیں کہ وہ لوگ یہ حرکت اولاد سے بچنے کے لیے کرتے ہوں۔ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ : یعنی صرف اسی کام میں نہیں بلکہ ہر کام میں حد سے گزرنا تمہاری عادت بن چکی ہے، جیسا کہ فرمایا : (اَىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَ ڏوَتَاْتُوْنَ فِيْ نَادِيْكُمُ الْمُنْكَرَ) [ العنکبوت : 29 ] ”کیا بیشک تم واقعی مردوں کے پاس آتے ہو اور راستہ کاٹتے ہو اور اپنی مجلس میں برا کام کرتے ہو ؟“ ہمارے عہد میں یورپی لوگ فطرت کی مخالفت میں اس قدر حد سے گزر گئے ہیں کہ انھوں نے قانوناً قوم لوط کے عمل کو جائز قرار دے دیا ہے اور مردوں کا مردوں کے ساتھ نکاح کرنے لگے ہیں۔ اگرچہ نئی سے نئی بیماریوں کی صورت میں اللہ کے عذاب کا کوڑا ان پر برس رہا ہے، تاہم بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر ایسا عذاب بھیجے جو دنیا کے لیے باعث عبرت ہو۔
Top