Al-Quran-al-Kareem - Ash-Shu'araa : 210
وَ مَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّیٰطِیْنُ
وَ : اور مَا تَنَزَّلَتْ : نہیں اترے بِهِ : اسے لے کر الشَّيٰطِيْنُ : شیطان (جمع)
اور اسے لے کر شیاطین نہیں اترے۔
وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيٰطِيْنُ : یہ ذکر کرنے کے بعد کہ یہ قرآن رب العالمین کا نازل کردہ ہے، جسے جبریل امین لے کر آپ کے دل پر اترا ہے، اب ان لوگوں کی تردید فرمائی جو کہتے تھے کہ محمد ﷺ کے پاس یہ وحی شیطان لاتے ہیں، جیسا کہ جندب بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جبریل ؑ کی آمد رک گئی تو قریش کی ایک عورت کہنے لگی : ”أَبْطَأَ عَلَیْہِ شَیْطَانُہُ“ ”اس کے شیطان نے اس کے پاس آنے میں دیر کردی ہے۔“ تو اس پر یہ آیات اتریں : (وَالضُّحٰى وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلٰى) [ الضحٰی : 1 تا 3 ] ”قسم ہے دھوپ چڑھنے کے وقت کی ! اور رات کی جب وہ چھا جائے ! نہ تیرے رب نے تجھے چھوڑا اور نہ وہ ناراض ہوا۔“ [ بخاري، التہجد، باب ترک القیام للمریض : 1125 ] اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس قرآن کو لے کر شیاطین نہیں اترے کہ یہ جادو ہو یا کہانت ہو، یا شعر ہو یا اوٹ پٹانگ خواب ہوں، کیونکہ شیاطین کا سرمایہ یہی کچھ ہوتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے شیاطین کے لیے اس کے ناممکن ہونے کی تین وجہیں بیان فرمائیں۔
Top