Al-Quran-al-Kareem - Ash-Shu'araa : 224
وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَؕ
وَالشُّعَرَآءُ : اور شاعر (جمع يَتَّبِعُهُمُ : ان کی پیروی کرتے ہیں الْغَاوٗنَ : گمراہ لوگ
اور شاعر لوگ، ان کے پیچھے گمراہ لوگ لگتے ہیں۔
وَالشُّعَرَاۗءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَ : ”الْغَاوٗنَ“ ”غَوٰی یَغْوِيْ“ (ض) سے اسم فاعل کی جمع ہے، گمراہ لوگ۔ کفارِمکہ رسول اللہ ﷺ پر کاہن کے علاوہ شاعر ہونے کا الزام بھی لگاتے تھے، اس لیے آپ سے کہانت کی نفی کے بعد شاعر ہونے کی نفی بھی فرمائی۔ مزید دیکھیے سورة یٰس (69) اور حاقہ (40 تا 43) ان آیات میں شعراء کی تین خصوصیات بیان فرمائیں جن سے صاف ظاہر ہے کہ شعراء اور نبی کریم ﷺ میں اور شعر اور قرآن مجید میں مشرق و مغرب کا فرق ہے۔ پہلی خصوصیت یہ کہ شعراء کے پیچھے گمراہ، بھٹکے ہوئے اور اوباش قسم کے لوگ لگتے ہیں، پھر جن کے پیچھے لگنے والے گمراہ ہوں خود ان کے گمراہ ہونے میں کیا کمی ہوگی ؟ عرب کے سب سے بڑے شاعر ”امرء القیس“ نے جس بےحیائی اور فحاشی کی اشاعت اپنے شعروں میں کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی، یہاں تک کہ اہل عرب بھی اسے اپنا سب سے بڑا شاعر ماننے کے باوجود ”اَلْمَلِکُ الضَّلِیْلُ“ (رند بادشاہ) کہتے تھے۔ شاعروں کا محبوب موضوع عشق بازی، شراب نوشی اور بازاری عورتوں یا کسی کی معصوم بہو وبیٹی کے حسن و جمال کا تذکرہ ہے، یا شہوت بھڑکانے والی فحش باتیں۔ وہ کسی کی بےجا مدح کرتے ہیں اور کسی کی ناجائز مذمت، اس لیے ان کے ساتھی بھی اسی قبیل کے لوگ ہوتے ہیں۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھی انتہائی سچے، پاکباز، شریف اور مہذب تھے۔ ایسے شخص کو شاعر وہی شخص کہہ سکتا ہے جو جھوٹ بولنے میں حیا کی ساری حدیں پار کر گیا ہو۔
Top