Al-Quran-al-Kareem - Ash-Shu'araa : 52
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْۤ اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَ
وَاَوْحَيْنَآ : اور ہم نے وحی کی اِلٰى : طرف مُوْسٰٓي : موسیٰ اَنْ اَسْرِ : کہ راتوں رات لے نکل بِعِبَادِيْٓ : میرے بندوں کو اِنَّكُمْ : بیشک تم مُّتَّبَعُوْنَ : پیچھا کیے جاؤگے
اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں کو رات کو لے چل، یقینا تمہارا پیچھا کیا جائے گا۔
وَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓي اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِيْٓ۔۔ : اوپر کے واقعات کے بعد بنی اسرائیل کی ہجرت کا ذکر شروع ہوتا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے بعد فوراً ہی موسیٰ ؑ کو بنی اسرائیل سمیت مصر سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا، بلکہ یہاں کئی سال کی تاریخ چھوڑ دی گئی ہے، جس کا ذکر سورة اعراف (127 تا 135) اور سورة یونس (83 تا 89) میں گزر چکا ہے اور جس کا ایک حصہ آگے سورة مؤمن (23 تا 46) اور سورة زخرف (46 تا 56) میں آ رہا ہے۔ یہاں چونکہ سلسلہ کلام کی مناسبت سے صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ جس فرعون نے صریح نشانیاں دیکھ لینے کے باوجود یہ ہٹ دھرمی دکھائی تھی اس کا انجام آخر کار کیا ہوا۔ 3 ان آیات میں ایک بہت بڑی عبرت یہ ہے کہ حق واضح ہونے کے بعد اسے تسلیم کرنے میں ایک طرف جادوگر ہیں، جنھوں نے ایمان لانے میں ایک لمحہ کی تاخیر نہیں کی اور ہاتھ پاؤں کاٹنے اور سولی پر چڑھانے کی دھمکیاں بھی انھیں حق سے برگشتہ نہیں کرسکیں، دوسری طرف فرعون اور اس کی قوم ہے، جو سالہا سال تک ان معجزوں کے علاوہ مزید نشانیاں دیکھتے رہے اور بار بار ایمان لانے اور بنی اسرائیل کو آزادی دینے کا وعدہ کرتے رہے، اس کے باوجود غرق ہونے تک ایمان سے محروم رہے۔ سچ فرمایا موسیٰ ؑ نے : (اِنْ هِىَ اِلَّا فِتْنَتُكَ ۭ تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَاۗءُ وَتَهْدِيْ مَنْ تَشَاۗءُ) [ الأعراف : 155 ] ”یہ نہیں ہے مگر تیری آزمائش، جس کے ساتھ تو گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور ہدایت بخشتا ہے جسے چاہتا ہے۔“ سورت کے آغاز میں رسول اللہ ﷺ کو کفار کے ایمان نہ لانے پر تسلی دیتے ہوئے اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ دیکھیے اسی سورت کی آیات (3 تا 9)۔ 3 جب فرعون کا ظلم و ستم حد سے بڑھ گیا تو موسیٰ ؑ نے فرعون اور اس کی قوم کے خلاف اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ (دیکھیے یونس : 88) اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور حکم دیا کہ میرے (مسلم) بندوں کو (بنی اسرائیلی ہوں یا کوئی اور) لے کر راتوں رات نکل جاؤ اور یاد رکھو ! تمہارا تعاقب کیا جائے گا، اس لیے اتنا فاصلہ طے کرلو کہ تعاقب کرنے والے جلدی تم تک نہ پہنچ سکیں۔ چناچہ ایسے موقع پر معروف طریقے کے مطابق پورے مصر کے بنی اسرائیل کے لیے ایک وقت اور ایک جگہ مقرر کردی گئی، جس پر وہ موسیٰ ؑ کے ساتھ جلد از جلد فرعون کی سلطنت (مصر) سے نکل جانے کے لیے رات کو روانہ ہوگئے۔ بعض تفاسیر میں ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے قبطیوں سے عاریتاً زیور مانگ لیے تھے جنھیں وہ ساتھ لے کر ہی روانہ ہوگئے، مگر یہ بات درست نہیں۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (87) کی تفسیر۔
Top