Al-Quran-al-Kareem - Ash-Shu'araa : 61
فَلَمَّا تَرَآءَ الْجَمْعٰنِ قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰۤى اِنَّا لَمُدْرَكُوْنَۚ
فَلَمَّا : پس جب تَرَآءَ : دیکھا ایکدوسرے کو الْجَمْعٰنِ : دونوں جماعتیں قَالَ : کہا (کہنے لگے) اَصْحٰبُ مُوْسٰٓي : موسیٰ کے ساتھی اِنَّا : یقیناً ہم لَمُدْرَكُوْنَ : پکڑ لیے گئے
پھر جب دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا بیشک ہم یقینا پکڑے جانے والے ہیں۔
فَلَمَّا تَرَاۗءَ الْجَمْعٰنِ۔۔ :”تَرَاءٰ ی یَتَرَاءٰ ی تَرَاءُیًا“ (تفاعل) ایک دوسرے کو دیکھنا۔ جب دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو نظر آنے لگیں تو موسیٰ ؑ کے ساتھی کہنے لگے کہ ہم تو یقیناً پکڑے جانے والے ہیں۔ ”إِنَّ“ اور ”لام تاکید“ سے ان کے شدید خوف کا اظہار ہو رہا ہے کہ اب ہر صورت یہ لوگ ہمیں مار ڈالیں گے، یا پھر غلام بنا کر ساتھ لے جائیں گے۔ اس سے پہلے مصر میں بھی انھوں نے موسیٰ ؑ سے کہا تھا : (اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا) [ الأعراف : 129 ] ”ہمیں اس سے پہلے ایذا دی گئی کہ تو ہمارے پاس آئے اور اس کے بعد بھی کہ تو ہمارے پاس آیا۔“ اب انھیں فرعون کی صورت میں موت نظر آئی تو انھوں نے یہ بات کہی۔ یہاں ”قَالَ بَنُوْ إِسْرَاءِیْلَ“ کے بجائے ”قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰٓي“ اس لیے فرمایا کہ ہجرت کرکے آنے والوں میں بنی اسرائیل کے علاوہ مسلمان بھی تھے۔
Top