Al-Quran-al-Kareem - Ash-Shu'araa : 82
وَ الَّذِیْۤ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لِیْ خَطِیْٓئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِؕ
وَالَّذِيْٓ : اور وہ جس سے اَطْمَعُ : میں امید رکھتا ہوں اَنْ يَّغْفِرَ لِيْ : کہ مجھے بخش دے گا خَطِيْٓئَتِي : میری خطائیں يَوْمَ الدِّيْنِ : بدلہ کے دن
اور وہ جس سے میں طمع رکھتا ہوں کہ وہ جزا کے دن مجھے میری خطا بخش دے گا۔
وَالَّذِيْٓ اَطْمَــعُ اَنْ يَّغْفِرَ لِيْ خَطِيْۗـــــَٔــتِيْ يَوْمَ الدِّيْنِ : یعنی قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ عدالت قائم فرمائے گا تو وہاں کسی کی عدالت، حاکمیت یا سلطنت نہیں ہوگی، نہ اس کے فیصلوں میں کسی کا کوئی دخل ہوگا، نہ اس کے سوا کوئی کسی کے گناہ معاف کرسکے گا، جیسا کہ فرمایا : (وَ مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ) [ آل عمران : 135 ]”اور اللہ کے سوا اور کون گناہ بخشتا ہے ؟“ چونکہ میں اس کا موحد بندہ ہوں، میں نے اس کے ساتھ شرک نہیں کیا، اس لیے میں اس سے امید رکھتا ہوں کہ اس دن وہ میری خطائیں معاف فرمائے گا۔ اس میں ابراہیم ؑ کی تواضع اور ان کا انکسار بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کی بےپروائی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی امید کا اظہار کیا ہے۔ ابراہیم ؑ نے یہ صفات اس لیے بیان فرمائیں کہ مشرکین کو مطمئن کرسکیں کہ عبادت صرف اس ”رب العالمین“ کا حق ہے جو ان صفات کا مالک ہے۔ دوسرے معبود جو نہ پیدا کرسکیں، نہ رہنمائی کرسکیں، نہ کھانے کو دے سکیں، نہ پینے کو، نہ شفا کے مالک ہوں، نہ موت و حیات کے، نہ قیامت برپا کرسکتے ہوں، نہ عدالت قائم کرسکتے ہوں، وہ عبادت کے حق دار کیسے ہوسکتے ہیں ؟
Top