Al-Quran-al-Kareem - Ash-Shu'araa : 84
وَ اجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَۙ
وَاجْعَلْ : اور کر لِّيْ لِسَانَ : میرے لیے۔ میرا ذکر صِدْقٍ : اچھا۔ خیر فِي الْاٰخِرِيْنَ : بعد میں آنے والوں میں
اور پیچھے آنے والوں میں میرے لیے سچی ناموری رکھ۔
وَاجْعَلْ لِّيْ لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْاٰخِرِيْنَ۔۔ : ”لِسَانَ“ سے مراد تعریف ہے، کیونکہ وہ زبان سے ہوتی ہے۔ ”لِسَانَ صِدْقٍ“ سے مراد اچھی تعریف اور نیک شہرت ہے، یعنی قیامت تک آنے والی نسلوں میں مجھے سچی ناموری عطا فرما کہ وہ اچھے الفاظ میں میرا ذکر کرتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی، یہودی، عیسائی اور مسلمان سب انھیں اپنا پیشوا مانتے ہیں اور ان کا ذکر خیر کرتے ہیں۔ مسلمان تو نماز میں ”کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیْمَ“ اور ”کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیْمَ“ بھی کہتے ہیں۔ [ دیکھیے بخاري : 3370 ] امام مالک ؓ نے اس آیت سے استدلال فرمایا کہ آدمی کی اس خواہش میں کوئی حرج نہیں کہ اس کی نیک شہرت ہو۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ اس کا فائدہ آخرت میں یہ ہے کہ ممکن ہے کہ نیک اعمال میں اس کی شہرت سن کر کوئی شخص وہ اعمال کرنے لگے جس کا اجر اسے بھی ملے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَعُمِلَ بِھَا بَعْدَہُ کُتِبَ لَہُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِھَا وَلَا یَنْقَصُ مِنْ أُجُوْرِھِمْ شَيْءٌ) [ مسلم، العلم، باب من سن سنۃ حسنۃ۔۔ : 15؍1017، قبل ح : 2674، عن جریر بن عبداللہ ؓ ] ”جو شخص اسلام میں کوئی اچھا طریقہ جاری کرے، پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا جائے، تو اس کے لیے ان لوگوں جیسا اجر لکھا جائے گا جو اس پر عمل کریں گے اور ان کے اجروں سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا۔“ بعض مفسرین نے اس سے یہ بھی مراد لیا ہے کہ آخر زمانے میں میری نسل سے نبی ہو، جیسا کہ فرمایا : (رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ) [ البقرۃ : 129 ] ”اے ہمارے رب ! اور ان میں انھی میں سے ایک رسول بھیج۔“ مگر اس دعا کے الفاظ سے یہ مفہوم نہیں نکلتا۔
Top