Al-Quran-al-Kareem - An-Naml : 10
وَ اَلْقِ عَصَاكَ١ؕ فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّ لَمْ یُعَقِّبْ١ؕ یٰمُوْسٰى لَا تَخَفْ١۫ اِنِّیْ لَا یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَۗۖ
وَاَلْقِ : اور تو ڈال عَصَاكَ : اپنا عصا فَلَمَّا : پس جب اسے رَاٰهَا : اسے دیکھا تَهْتَزُّ : لہراتا ہوا كَاَنَّهَا : گویا کہ وہ جَآنٌّ : سانپ وَّلّٰى : وہ لوٹ گیا مُدْبِرًا : پیٹھ پھیر کر وَّلَمْ يُعَقِّبْ : اور مڑ کر نہ دیکھا يٰمُوْسٰي : اے موسیٰ لَا تَخَفْ : تو خوف نہ کھا اِنِّىْ : بیشک میں لَا يَخَافُ : خوف نہیں کھاتے لَدَيَّ : میرے پاس الْمُرْسَلُوْنَ : رسول (جمع)
اور اپنی لاٹھی پھینک۔ تو جب اس نے اسے دیکھا کہ حرکت کر رہی ہے، جیسے وہ ایک سانپ ہے تو پیٹھ پھیر کر لوٹا اور واپس نہیں مڑا۔ اے موسیٰ ! مت ڈر، بیشک میں، میرے پاس رسول نہیں ڈرتے۔
وَاَلْقِ عَصَاكَ ۭ فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ۔۔ : ”جَاۗنٌّ“ اصل میں چھوٹے سفیدسانپ کو کہتے ہیں۔ سورة اعراف (107) اور شعراء (32) میں اس کے لیے ”ثُعْبَانٌ“ کا لفظ آیا ہے، جس کا معنی بڑا سانپ (اژدہا) ہے۔ اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ وہ شروع میں ”جَانٌّ“ تھا، پھر ”ثُعْبَانٌ“ بن گیا۔ شاہ عبد القادر ؓ لکھتے ہیں : ”اول سٹک سی بن گئی تھی پتلی، جب فرعون کے آگے ڈالی تو ناگ ہوگئی بڑھ کر۔“ (موضح) یا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سانپ حجم میں اژدہا تھا، مگر تیزی میں چھوٹے سانپ جیسا تھا۔ يٰمُوْسٰي لَا تَخَفْ۔۔ : موسیٰ ؑ کے خوف زدہ ہو کر پیٹھ پھیر کر لوٹنے سے ظاہر ہے کہ انھیں اس سے پہلے نہ اپنے نبی بنائے جانے کا علم تھا، نہ یہ معجزات عطا کیے جانے کا۔ ہمارے نبی کریم ﷺ بھی پہلی وحی پر سخت خوف زدہ ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا : ”اے موسیٰ ! ڈرو نہیں، رسول میرے پاس ڈرا نہیں کرتے۔“ بعض حضرات نبی ﷺ کو پیدائش سے بھی پہلے عالم الغیب باور کروانے پر اصرار کرتے ہیں۔
Top