Al-Quran-al-Kareem - An-Naml : 19
فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِهَا وَ قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلٰى وَالِدَیَّ وَ اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَ اَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِكَ فِیْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِیْنَ
فَتَبَسَّمَ : تو وہ مسکرایا ضَاحِكًا : ہنستے ہوئے مِّنْ : سے قَوْلِهَا : اس کی بات وَقَالَ : اور کہا رَبِّ : اے میرے رب اَوْزِعْنِيْٓ : مجھے توفیق دے اَنْ اَشْكُرَ : کہ میں شکر ادا کروں نِعْمَتَكَ : تیری نعمت الَّتِيْٓ : وہ جو اَنْعَمْتَ : تونے انعام فرمائی عَلَيَّ : مجھ پر وَعَلٰي : اور پر وَالِدَيَّ : میرے ماں باپ وَاَنْ : اور یہ کہ اَعْمَلَ صَالِحًا : میں نیک کام کروں تَرْضٰىهُ : تو وہ پسند کرے وَاَدْخِلْنِيْ : اور مجھے داخل فرمائے بِرَحْمَتِكَ : اپنی رحمت سے فِيْ : میں عِبَادِكَ : اپنے بندے الصّٰلِحِيْنَ : نیک (جمع)
تو وہ اس کی بات سے ہنستا ہوا مسکرایا اور اس نے کہا اے میرے رب ! مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر کروں، جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کی ہے اور یہ کہ میں نیک عمل کروں، جسے تو پسند کرے اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما۔
فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِهَا : تبسم بعض اوقات غصے اور ناراضی کی وجہ سے بھی ہوتا ہے، جیسا کہ کعب بن مالک ؓ کی حدیث توبہ میں ہے : (تَبَسَّمَ تَبَسُّمَ الْمُغْضَبِ) [ بخاري : 4418 ] کہ رسول اللہ ﷺ مجھے دیکھ کر مسکرائے، غصے والے کی طرح مسکرانا۔ تبسم کے بعد ”ضَاحِكًا“ اس لیے فرمایا کہ یہ مسکراہٹ ہنسنے کا پیش خیمہ تھی، جو خوشی کا اظہار ہوتا ہے۔ مسکرانے اور ہنسنے کی وجہ ایک تو چیونٹی کی دانش مندی اور اپنی قوم کی خیر خواہی پر تعجب تھا، دوسری وجہ اپنی نیک شہرت پر خوشی تھی کہ چیونٹیاں تک جانتی ہیں کہ سلیمان دانستہ کسی پر زیادتی نہیں کرتا۔ وَقَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِيْٓ۔۔ : چیونٹی کی آواز سن لینا، پھر اس کی بات سمجھ لینا، پھر اپنی نیک شہرت، یہ سب ایسی چیزیں تھیں کہ سلیمان ؑ کا دل فخر و غرور کے بجائے شکر کے جذبات سے لبریز ہوگیا۔ مگر یہ سوچ کر کہ میں اس نعمت کا اور ان تمام نعمتوں کا شکر ادا کر ہی نہیں سکتا جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی ہیں، انھوں نے اللہ تعالیٰ سے شکر کی توفیق عطا کرنے کی دعا کی۔ والدین پر نعمت بھی آدمی کے حق میں نعمت ہوتی ہے۔ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ : عمل صالح وہ ہے جو خالص اللہ کے لیے ہو اور اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو۔ سلیمان ؑ کو علم عطا ہونے پر عمل کی فکر دامن گیر ہوئی، کیونکہ عمل کے بغیر علم انسان کے خلاف حجت ہوتا ہے۔ وَاَدْخِلْنِيْ بِرَحْمَتِكَ فِيْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيْنَ : اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے صالح بندوں میں شمولیت اور جنّت کا حصول اللہ کی رحمت کے بغیر ممکن نہیں۔ ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا : (لَنْ یُّدْخِلَ أَحَدًا عَمَلُہُ الْجَنَّۃَ ، قَالُوْا وَلَا أَنْتَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! ؟ قَالَ لَا، وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ یَّتَغَمَّدَنِيَ اللّٰہُ بِفَضْلٍ وَ رَحْمَۃٍ) [ بخاري، المرضٰی، باب تمني المریض الموت : 5673 ] ”کسی شخص کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔“ لوگوں نے کہا : ”یا رسول اللہ ! کیا آپ کو بھی نہیں ؟“ فرمایا : ”نہیں ! میں بھی نہیں مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل اور رحمت کے ساتھ ڈھانپ لے۔“ 3 سلیمان ؑ نے نبی ہو کر صالحین میں داخل ہونے کی دعا کیوں کی ؟ دیکھیے سورة یوسف (101)۔
Top