Al-Quran-al-Kareem - An-Naml : 47
قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِكَ وَ بِمَنْ مَّعَكَ١ؕ قَالَ طٰٓئِرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ
قَالُوا : وہ بولے اطَّيَّرْنَا : برا شگون بِكَ : اور وہ جو وَبِمَنْ : اور وہ جو مَّعَكَ : تیرے ساتھ (ساتھی) قَالَ : اس نے کہا طٰٓئِرُكُمْ : تمہاری بدشگونی عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے پاس بَلْ : بلکہ اَنْتُمْ : تم قَوْمٌ : ایک قوم تُفْتَنُوْنَ : آزمائے جاتے ہو
انھوں نے کہا ہم نے تیرے ساتھ اور ان لوگوں کے ساتھ جو تیرے ہمراہ ہیں، بدشگونی پکڑی ہے۔ کہا تمہاری بدشگونی اللہ کے پاس ہے، بلکہ تم ایسے لوگ ہو جو آزمائے جا رہے ہو۔
قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ۔۔ :”اطَّيَّرْنَا“ اصل میں ”تَطَیَّرْنَا“ ہے، (ہم نے بدشگونی لی) تاء کو ساکن کرکے طاء میں ادغام کیا اور پہلا حرف ساکن ہوجانے کی وجہ سے شروع میں ہمزہ وصلی کا اضافہ کردیا۔ ادغام کی وجہ سے بدشگونی کے معنی میں شدت کا اظہار ہو رہا ہے۔ صالح ؑ کو جھٹلانے والوں نے کہا کہ ہم نے تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے ساتھ بدشگونی پکڑی ہے اور تمہیں منحوس ہی پایا ہے کہ آئے دن ہم پر آفات و مصائب کا ہجوم رہتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس کا باعث تم اور تمہارے ساتھی ہیں۔ آل فرعون پر جب مختلف عذاب آئے تو انھوں نے بھی یہی بات کہی تھی : (فَاِذَا جَاۗءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ ۚ وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰي وَمَنْ مَّعَهٗ) [ الأعراف : 131 ] ”تو جب ان پر خوش حالی آتی تو کہتے یہ تو ہمارے ہی لیے ہے اور اگر انھیں کوئی تکلیف پہنچتی تو موسیٰ اور اس کے ساتھ والوں کے ساتھ نحوست پکڑتے۔“ سورة یٰس میں مذکور بستی کے لوگوں نے بھی اپنے رسولوں سے یہی کہا تھا : (اِنَّا تَــطَيَّرْنَا بِكُمْ ۚ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهُوْا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّـنَّكُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِــيْمٌ) [ یٰسٓ : 18 ] ”بیشک ہم نے تمہیں منحوس پایا ہے، یقیناً اگر تم باز نہ آئے تو ہم ضرور ہی تمہیں سنگسار کردیں گے اور تمہیں ہماری طرف سے ضرور ہی دردناک عذاب پہنچے گا۔“ ہمارے نبی ﷺ کو بھی کفار ایسے ہی کہتے تھے : (وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَيِّئَةٌ يَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِكَ ۭقُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۭ فَمَالِ هٰٓؤُلَاۗءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُوْنَ يَفْقَهُوْنَ حَدِيْثًا) [ النساء : 78 ] ”اور اگر انھیں کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر انھیں کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے۔ کہہ دے سب اللہ کی طرف سے ہے، پھر ان لوگوں کو کیا ہے کہ قریب نہیں ہیں کہ کوئی بات سمجھیں۔“ قَالَ طٰۗىِٕرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة اعراف (131) کی تفسیر۔ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ : یعنی تمہارے مصائب کا سبب ہمارا منحوس ہونا نہیں، بلکہ اصل سبب یہ ہے کہ اب تمہارا امتحان شروع ہے کہ تم آفات و مصائب سے سبق حاصل کرکے ایمان قبول کرتے ہو یا کفر پر جمے رہتے ہو۔
Top