Al-Quran-al-Kareem - An-Naml : 65
قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰهُ١ؕ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ
قُلْ : فرما دیں لَّا يَعْلَمُ : نہیں جانتا مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین الْغَيْبَ : غیب اِلَّا اللّٰهُ : سوائے اللہ کے وَمَا يَشْعُرُوْنَ : اور وہ نہیں جانتے اَيَّانَ : کب يُبْعَثُوْنَ : وہ اٹھائے جائیں گے
کہہ دے اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہے غیب نہیں جانتا اور وہ شعور نہیں رکھتے کہ کب اٹھائے جائیں گے۔
قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔۔ : ”الْغَيْبَ“ ”غَابَ یَغِیْبُ“ کا مصدر ہے، اکثر غائب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، مراد وہ چیزیں ہیں جو نہ حواس خمسہ سے معلوم ہو سکیں اور نہ عقل ان کا ادراک کرسکے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی بھی معبود کی عبادت، اس سے فریاد کرنے اور اسے مشکل کشا یا حاجت روا سمجھنے کی ابتدا اس بات سے ہوتی ہے کہ اسے عالم الغیب سمجھ لیا جاتا ہے۔ ورنہ اگر عقیدہ یہ ہو کہ میرے تمام احوال سے میرے مالک کے سوا کوئی واقف ہی نہیں، تو وہ کسی غیر کو کیوں پکارے گا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ یہ اعلان کرنے کا حکم دیا کہ کوئی آسمان میں ہے یا زمین میں، اللہ کے سوا غیب کوئی نہیں جانتا۔ 3 اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کو غیب کی بعض باتوں کی اطلاع دیتا ہے، مگر اس سے وہ عالم الغیب نہیں بن جاتے، کیونکہ انھیں اتنی ہی بات معلوم ہوتی ہے جتنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتائی جاتی ہے، جیسا کہ فرمایا : (عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰي غَيْبِهٖٓ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًا لِّيَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّهِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَاَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا) [ الجن : 26 تا 28 ] ”(وہ) غیب کو جاننے والا ہے، پس اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ مگر کوئی رسول، جسے وہ پسند کرلے تو بیشک وہ اس کے آگے اور اس کے پیچھے پہرا لگا دیتا ہے۔ تاکہ جان لے کہ انھوں نے واقعی اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے ہیں اور اس نے ان تمام چیزوں کا احاطہ کر رکھا ہے جو ان کے پاس ہیں اور ہر چیز کو گن کر شمار کر رکھا ہے۔“ یہی وجہ ہے کہ یعقوب ؑ کو مصر سے قمیص کی روانگی کے ساتھ ہی یوسف ؑ کی خوشبو آگئی، مگر چند میل کے فاصلے پر کنویں میں پڑے ہوئے یوسف ؑ کی خبر نہ ہوسکی اور سال ہا سال تک رونے کی وجہ سے آنکھیں سفید ہوگئیں، مگر علم اس وقت ہوا جب اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ ہمارے نبی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے معراج کروا دیا، مگر جوتوں پر لگی گندگی کا علم اسی وقت ہوا جب جبریل ؑ نے آکر نماز میں بتایا۔ اگر بعض باتیں معلوم ہونے سے کوئی عالم الغیب بن جاتا ہو تو ہم میں سے ہر شخص عالم الغیب ہوگا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے بتانے سے ہمیں بھی غیب کی کئی باتوں کا علم ہے۔ 3 اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کی جو صفات بیان ہوئی ہیں وہ سوال کے انداز میں بیان ہوئی ہیں، کیونکہ مشرکین بھی مانتے تھے کہ پیدا کرنا، بارش اتارنا، رزق دینا اور دوسری صفات صرف اللہ تعالیٰ کی ہیں۔ علم کے متعلق چونکہ مشرکین یہ نہیں مانتے تھے، بلکہ غیر اللہ کو پکارتے ہی اس لیے تھے کہ سمجھتے تھے کہ وہ ہمارے حال سے واقف ہیں اور ہماری فریاد سن رہے ہیں، حالانکہ اکیلے اللہ تعالیٰ کو خالق ماننے کا مطلب یہی ہے کہ اپنی مخلوق کا پورا علم بھی وہی رکھتا ہے، فرمایا : (اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ۭ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ) [ الملک : 14 ] ”کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا ہے اور وہی تو ہے جو نہایت باریک بین ہے، کامل خبر رکھنے والا ہے۔“ جس نے پیدا ہی نہیں کیا اسے اللہ کی مخلوق کے جملہ احوال کا علم کیسے ہوسکتا ہے ؟ مگر آج کل بھی بعض کلمہ گو حضرات انبیاء، اولیاء اور پیروں فقیروں کو اس عقیدے کے ساتھ پکارتے ہیں کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں، بلکہ صاف کہتے ہیں کہ وہ کون سی بات ہے جو ان سے مخفی ہے اور اس کے لیے انھوں نے بیشمار کہانیاں گھڑ رکھی ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے سوالیہ انداز کے بجائے صاف لفظوں میں کہہ دینے کا حکم فرمایا کہ اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ 3 جب انبیاء و اولیاء غیب نہیں جانتے تو کاہن، رمال، جفار، جوتشی، جعلی استخارے کر کے آئندہ کی خبریں بتانے والے اور چوریاں بتانے والے عالم الغیب کیسے ہوسکتے ہیں ؟ یہ سب لوگ جھوٹے و دغا باز ہیں۔ آسمان سے سنی ہوئی کوئی بات سچی نکل آتی ہے تو وہ اس کے ساتھ اپنے جھوٹ کا بازار چمکاتے رہتے ہیں۔ 3 اگر اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب ہوتا تو اس کے سب سے زیادہ لائق ہمارے نبی کریم ﷺ تھے۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کو علم غیب عطائی تھا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ”مَا کَانَ وَ مَا یَکُوْنُ“ کا علم عطا فر دیا تھا، فرق صرف ذاتی اور عطائی کا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اپنی کسی صفت میں برابر کا شریک بنا لے۔ دیکھیے سورة روم (28) اور سورة نحل (71) کی تفسیر۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس دعویٰ کے لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ”مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ“ (جو ہوچکا اور جو ہوگا) کا سارا علم نبی کریم ﷺ کو دے دیا تھا، یہ واضح کرنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو وہ علم کب عطا فرمایا۔ اگر کہا جائے کہ نبوت ملنے سے پہلے یا وفات سے پہلے کسی وقت آپ کو یہ علم عطا ہوگیا تھا تو جبریل ؑ کی آمد اور وحی کے نزول کا سلسلہ عبث ٹھہرتا ہے اور اگر کہا جائے کہ وفات سے پہلے تو آپ عالم الغیب نہیں تھے، البتہ وفات کے وقت عالم الغیب ہوگئے تھے، تو وہ احادیث اس کا رد کرتی ہیں جن میں فرشتوں کے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہنے کا ذکر ہے کہ (إِنَّکَ لَا تَدْرِيْ مَا أَحْدَثُوْا بَعْدَکَ) [ بخاري : 4625 ] ”تم نہیں جانتے انھوں نے تمہارے بعد کیا نئے کام کیے تھے۔“ اور جن میں شفاعت کے لیے عرش کے نیچے سجدے کی حالت میں آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ محامد سکھانے کا ذکر ہے جو آپ ﷺ کو اس سے پہلے معلوم نہیں ہوں گے۔ (دیکھیے بخاری : 7510) 3 الغرض، یہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے کہ عالم الغیب اللہ کے سوا کوئی نہیں، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے غیب کی کسی بات کی اطلاع دے دے، لیکن جمیع ”مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ“ کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، چناچہ فرمایا : (وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ) [ الأنعام : 59] ”اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں، انھیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔“ اور فرمایا : (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ) [ لقمان : 34 ] ”بیشک اللہ، اسی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہ بارش برساتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹوں میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائی کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔“ اور فرمایا : (يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ) [ البقرۃ : 255 ] ”وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرتے مگر جتنا وہ چاہے۔“ قرآن مجید نے اللہ کے سوا کسی سے علم الغیب کی صرف مطلق اور عام نفی ہی نہیں فرمائی بلکہ انبیاء ؑ اور خود نبی کریم ﷺ کے بارے میں صاف تصریح فرمائی ہے کہ وہ عالم الغیب نہیں ہیں، انھیں غیب کا علم اتنا ہی دیا گیا ہے جس کی رسالت کے لیے ضرورت تھی۔ پہلے انبیاء کے متعلق دیکھیے، آدم ؑ کا قصہ۔ [ طٰہٰ : 120 تا 122 ] نوح ؑ کا قصہ۔ [ ھود : 31 تا 36 اور 45 تا 47 ] ابراہیم ؑ کا قصہ۔ [ الشعراء : 69 تا 86 ] لوط ؑ کا قصہ۔ [ ھود : 77 تا 83 ] یعقوب ؑ کا قصہ۔ [ یوسف : 83، 84] سلیمان ؑ کا قصہ۔ [ النمل : 20 تا 28] موسیٰ ؑ کا قصہ۔ [ الأعراف : 143۔ طٰہٰ : 21 اور 64 تا 68 اور 83 تا 86۔ النمل : 10۔ القصص : 20] زکریا ؑ کا قصہ۔ [ مریم : 2 تا 10۔ آل عمران : 37 تا 47 ] داؤد ؑ کا قصہ۔ [ صٓ : 22 تا 25 ] فرشتے بھی غیب نہیں جانتے۔ [ البقرۃ : 31 تا 33 ] اور جن بھی غیب نہیں جانتے ہیں۔ [ سبا : 12 تا 14 ] ہمارے نبی کریم ﷺ کی زندگی کے تین زمانے ہیں، نبوت سے پہلے کا زمانہ۔ نبوت کا زمانہ اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد کا زمانہ۔ نبوت سے پہلے زمانے کے متعلق قرآن مجید نے تصریح فرمائی کہ آپ کو ان باتوں کا علم نہ تھا۔ دیکھیے سورة شوریٰ (52) ، قصص (44 تا 46، 48) اور ہود (49)۔ نبی بننے سے فوت ہونے تک کے زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو گزشتہ و آئندہ کے بیشمار واقعات اور علوم عطا فرمائے، مگر اللہ کے علم سے آپ کے علم کی کوئی نسبت نہیں، جیسا کہ خضر ؑ نے موسیٰ ؑ کو اپنے اور موسیٰ ؑ کے علم کی اللہ تعالیٰ کے علم سے نسبت کی مثال سمندر اور چڑیا کی چونچ کے قطرے کی مثال دے کر سمجھائی۔ [ دیکھیے بخاري : 4725 ] ام المومنین عائشہ ؓ نے فرمایا : (مَنْ حَدَّثَکَ أَنَّہُ یَعْلَمُ الْغَیْبَ فَقَدْ کَذَبَ) [ بخاري، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ : (عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ أحدا)۔۔ : 7380، 4855 ] ”جو شخص تجھے یہ کہے کہ رسول ﷺ غیب جانتے تھے اس نے جھوٹ کہا۔“ اب نبی ﷺ کی زندگی کے چند واقعات اختصار کے ساتھ ملاحظہ ہوں جن سے آپ کے عالم الغیب ہونے کی نفی ہوتی ہے : 1 عائشہ ؓ سے متعلق واقعۂ افک۔ دیکھیے سورة نور (16 تا 26) اور صحیح بخاری میں حدیث افک (4141)۔ 2 شہد حرام کرنے کا واقعہ۔ دیکھیے سورة تحریم (1 تا 4) اور صحیح بخاری (4912)۔ 3 اللہ نے آپ سے کچھ پیغمبروں کا حال بیان فرمایا، کچھ کا نہیں۔ دیکھیے سورة نساء (164)۔ 4 آپ کو قیامت کے وقت کا علم نہیں۔ دیکھیے سورة احزاب (63) ، شوریٰ (17) ، اعراف (187) ، طٰہٰ (15) ، نمل (65) ، لقمان (34) ، حٰم السجدہ (47) ، زخرف (85) اور ملک (25، 26)۔ 5 اللہ کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ دیکھیے مدثر (31)۔ 6 عبداللہ بن ام مکتوم نابینا صحابی کا واقعہ۔ دیکھیے سورة عبس (1 تا 12)۔ 7 اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ مدینہ اور اس کے ارد گرد کچھ منافق ہیں، نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، تو انھیں نہیں جانتا، ہم انھیں جانتے ہیں۔ دیکھیے سورة توبہ (101)۔ 8 رسول اللہ ﷺ کا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور جبریل ؑ سے بار بار پوچھنا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ پھر آپ ﷺ کا فرمانا کہ سدرۃ المنتہیٰ کو ایسے رنگوں نے ڈھانپ لیا کہ میں نہیں جانتا وہ کیا تھے ؟ [ دیکھیے بخاري، الصلاۃ، باب کیف فرضت الصلاۃ في الإسراء : 349 ] 9 فتح مکہ کے موقع پر آپ پردے کے پیچھے غسل کر رہے تھے کہ ام ہانی ؓ حاضر ہوئیں، اس نے سلام کہا تو آپ نے فرمایا : ”کون ہے ؟“ بتایا کہ ام ہانی ہوں۔ [ دیکھیے بخاري، الغسل، باب التستر فی الغسل عند الناس : 280 ] 0 ایک سفر میں عائشہ ؓ کا ہار گم ہوگیا، رسول اللہ ﷺ اور لوگ آپ کے ساتھ اس کی تلاش کے لیے ٹھہر گئے۔ بعد میں اس اونٹ کو کھڑا کیا جس پر عائشہ ؓ سو رہی تھیں تو ہار اس کے نیچے سے مل گیا۔ [ دیکھیے بخاري، التیمم، باب : 334 ] ! مرض الموت میں جب آپ کا مرض بڑھ گیا تو آپ بار بار بےہوش ہو کر ہوش میں آتے تو فرماتے : ”لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے ؟“ عرض کیا جاتا، نہیں تین بار ایسا ہوا۔ [ دیکھیے بخاري، الأذان، باب أن جعل الإمام لیؤتم بہ : 687 ] @ستر صحابہ کو مشرکین کی ایک جماعت کی طرف بھیجا، انھوں نے ان کو شہید کردیا، آپ سخت غمگین ہوئے۔ [ دیکھیے بخاري، الوتر، باب القنوت قبل الرکوع و بعدہ : 1002 ] # رسول اللہ ﷺ سوئے رہے، ابوبکر و عمر ؓ اور دوسرے صحابہ بھی سوئے رہے، سورج پوری طرح نکل آیا تو صبح کی نماز بعد میں پڑھی۔ [ دیکھیے مسلم، المساجد، باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ۔۔ : 680 ] $ مسجد میں جھاڑو دینے والی عورت فوت ہوگئی اور جنازے کے بعد دفن کردی گئی، تو آپ نے فرمایا : ”تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا۔“ پھر آپ نے فرمایا : ”مجھے اس کی قبر بتاؤ۔“ [ دیکھیے بخاري، الصلاۃ، باب کنس المسجد : 458 ] % رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”میں اپنے گھر جاتا ہوں، وہاں مجھے میرے بستر پر کھجور پڑی ہوئی ملتی ہے، میں اسے کھانے کے لیے اٹھا لیتا ہوں، لیکن پھر یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں یہ صدقہ کی کھجور نہ ہو تو میں اسے پھینک دیتا ہوں۔“ [ دیکھیے بخاري، اللقطۃ، باب إذا وجد تمرۃ۔۔ : 2431 ] ^آپ نے فرمایا : ”مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی، پھر بھلا دی گئی۔“ [ دیکھیے بخاري، فضل لیلۃ القدر، باب التماس لیلۃ القدر۔۔ : 2016 ] بنوعکل اور عرینہ کے لوگوں کا واقعہ جنھیں آپ ﷺ نے اونٹوں کے ساتھ رہ کر دودھ اور پیشاب پینے کا حکم دیا اور وہ تندرست ہونے پر آپ کے چرواہے کو قتل کرکے اونٹنیاں ہانک کرلے گئے۔ [ دیکھیے بخاري، الجہاد والسیر، باب إذا حرق المشرک۔۔ : 3018، 233 ] یہودی عورت کا بکری کے گوشت میں زہر ملانے کا واقعہ۔ [ دیکھیے بخاري، الھبۃ و فضلھا، باب قبول الھدیۃ من المشرکین : 2617 ] (رسول اللہ ﷺ نے دس آدمیوں کو جاسوسی کے لیے روانہ کیا، ان کا سردار عاصم بن ثابت انصاری ؓ کو بنایا۔ سات شہید ہوگئے، تین بچ گئے، انھوں نے دعا کی : ”یا اللہ ! ہماری خبر ہمارے پیغمبر ﷺ کو پہنچا دے۔“ بعد میں باقی دو بھی شہید ہوگئے اور خبیب ؓ قیدی بن گئے، پھر ان کو بھی شہید کردیا گیا۔ [ دیکھیے بخاري، الجھاد والسیر، باب ھل یستأسر الرجل ؟۔۔ : 3045 ] مزید واقعات محترم ارشاد اللہ مان کی کتاب ”تلاشِ حق“ میں دیکھیں، انھوں نے یہاں اٹھتر (78) واقعات نقل کیے ہیں۔ رہا نبی ﷺ کی وفات کے بعد کا زمانہ، تو کئی احادیث سے ثابت ہے کہ آپ قیامت کے دن بھی عالم الغیب نہیں ہوں گے۔ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (یَأَیُّھَا النَّاسُ ، إِنَّکُمْ مَحْشُوْرُوْنَ إِلَی اللّٰہِ حُفَاہً عُرَاۃً غُرْلًا، ثُمَّ قَالَ : (كَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُهٗ ۭ وَعْدًا عَلَيْنَا ۭ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِيْن) إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ ثُمَّ قَالَ : أَلَا وَإِنَّ أَوَّلَ الْخَلَاءِقِ یُکْسٰی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِبْرَاھِیْمُ ، أَلَا وَإِنَّہُ یُجَاءُ بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِيْ فَیُؤْخَذُ بِھِمْ ذَات الشِّمَالِ فَأَقُوْلُ یَا رَبِّ ! أُصَیْحَابِيْ ، فَیُقَالُ ، إِنَّکَ لَا تَدْرِيْ مَا أَحْدَثُوْا بَعْدَکَ ، فَأَقُوْلُ کَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ : (وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ) فَیُقَالُ : إِنَّ ھٰؤُلَاءِ لَمْ یَزَالُوْا مُرْتَدِّیْنَ عَلٰی أَعْقَابِھِمْ مُنْذُ فَارَقْتَھُمْ) [ بخاري، التفسیر، باب : (و کنت علیہم شھیدا ما دمت فیھم۔۔) : 4625 ] ”اے لوگو ! تم اللہ کے سامنے ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بےختنہ جمع کیے جاؤ گے۔“ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی : (كَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُهٗ ۭ وَعْدًا عَلَيْنَا ۭ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِيْن) [ الأنبیاء : 104 ] ”جس طرح ہم نے پہلی پیدائش کی ابتدا کی (اسی طرح) ہم اسے لوٹائیں گے۔ یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے، یقیناً ہم ہمیشہ (پورا) کرنے والے ہیں۔“ پھر فرمایا : ”سنو ! سب سے پہلے قیامت کے دن ابراہیم ؑ کو کپڑے پہنائے جائیں گے۔ سن لو ! میری امت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے، فرشتے ان کو پکڑ کر بائیں طرف والوں (یعنی دوزخیوں) میں لے جائیں گے۔ میں عرض کروں گا : ”اے رب ! یہ تو میرے امتی ہیں۔“ ارشاد ہوگا : ”تم نہیں جانتے، انھوں نے تمہارے بعد کیا کام کیے۔“ تو اس وقت میں وہی کہوں گا جو اللہ کے نیک بندے عیسیٰ ؑ نے کہا : (وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ) [ المائدۃ : 117 ] ”اور میں ان پر گواہ تھا جب تک میں ان میں رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان پر نگران تھا۔“ ارشاد ہوگا : ”یہ لوگ اپنی ایڑیوں کے بل اسلام سے پھرتے رہے جب تو ان سے جدا ہوا۔“ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (فَأَسْتَأْذِنُ عَلٰی رَبِّيْ فَیُؤْذَنُ لِيْ فَأَقُوْمُ بَیْنَ یَدَیْہِ فَأَحْمَدُہُ بِمَحَامِدَ لَا أَقْدِرُ عَلَیْہِ الْآنَ ، یُلْھِمُنِیْہِ اللّٰہُ تَعَالٰی) [ مسلم، الإیمان، باب أدنٰی أھل الجنۃ منزلۃ فیھا : 326؍193 ] ”(قیامت کے روز جب سب لوگ میرے پاس آئیں گے تو) میں اپنے رب سے اجازت مانگوں گا، مجھے اجازت دے دی جائے گی تو میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوجاؤں گا اور اللہ کی ایسی حمدو ثنا کروں گا کہ آج میں اس پر قادر نہیں، اس وقت وہ حمد اللہ تعالیٰ مجھے القا کرے گا۔“ rnۭ وَمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ : اس سے معلوم ہوا کہ علم غیب کی نفی ان سے نہیں کی جا رہی جو قیامت کے دن اٹھائے نہیں جائیں گے، مثلاً بت یا حجر و شجر، یا شمس و قمر، یا فرشتے، بلکہ ان لوگوں سے کی جا رہی ہے جو قیامت کو اٹھائے جائیں گے، خواہ وہ پیغمبر ہوں یا صدیق، یا شہداء، یا صالحین، فرمایا، علم غیب تو کجا انھیں یہ بھی شعور نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔
Top