Al-Quran-al-Kareem - An-Naml : 80
اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ
اِنَّكَ : بیشک تم لَا تُسْمِعُ : تم نہیں سنا سکتے الْمَوْتٰى : مردوں کو وَلَاتُسْمِعُ : اور تم نہیں سنا سکتے الصُّمَّ : بہروں کو الدُّعَآءَ : پکار اِذَا وَلَّوْا : جب وہ مڑ جائیں مُدْبِرِيْنَ : پیٹھ پھیر کر
بیشک تو نہ مردوں کو سناتا ہے اور نہ بہروں کو اپنی پکار سناتا ہے، جب وہ پیٹھ پھیر کر پلٹ جائیں۔
اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَاتُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاۗءَ۔۔ : یہ بھی آپ ﷺ کے لیے تسلی ہے کہ آپ ان لوگوں کے قرآن پر ایمان نہ لانے سے دل گرفتہ نہ ہوں، ضد، عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے انھوں نے طے کر رکھا ہے کہ انھوں نے ایمان لانا ہی نہیں۔ یہ کافر لوگ مردوں کی طرح ہیں، جنھیں دعوت دینا اور نصیحت کی کوئی بات سنانا قطعی سود مند نہیں اور یہ ان بہروں کی طرح ہیں جو پیٹھ دے کر بھاگ رہے ہوں۔ اگر وہ سامنے دیکھ رہے ہوتے تو شاید توجہ کے ساتھ کچھ سمجھ جاتے، مگر پیٹھ دے کر بھاگنے کی صورت میں تو ممکن ہی نہیں کہ وہ کوئی بات سن سکیں۔ روحانی موت اور روحانی بہرے پن کو جسمانی موت اور جسمانی بہرے پن کے ساتھ تشبیہ سے ظاہر ہے کہ مردوں کو کوئی بات سنائی نہیں جاسکتی۔ یہ نفی عام ہے، اس سے صرف وہ مواقع مستثنیٰ ہیں جو دلیل (کتاب و سنت) سے ثابت ہوں اور وہ صرف دو ہیں، ان کے علاوہ کسی آیت یا صحیح حدیث سے مردوں کا سننا ثابت نہیں۔ ایک موقع وہ ہے جو انس ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اَلْعَبْدُ إِذَا وُضِعَ فِيْ قَبْرِہِ وَتُوُلِّيَ وَ ذَھَبَ أَصْحَابُہُ حَتّٰی إِنَّہُ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِھِمْ ، أَتَاہُ مَلَکَانِ فَأَقْعَدَاہُ فَیَقُوْلَانِ لَہُ مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِيْ ھٰذَا الرَّجُلِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ ؟ فَیَقُوْلُ أَشْھَدُ أَنَّہُ عَبْدُ اللّٰہِ وَ رَسُوْلُہُ ، فَیُقَالُ انْظُرْ إِلٰی مَقْعَدِکَ مِنَ النَّارِ أَبْدَلَکَ اللّٰہُ بِہِ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّۃِ ، قَال النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَیَرَاھُمَا جَمِیْعًا، وَ أَمَّا الْکَافِرُ أَوِ الْمُنَافِقُ فَیَقُوْلُ لَا أَدْرِيْ ، کُنْتُ أَقُوْلُْ مَا یَقُوْلُ النَّاسُ ، فَیُقَالُ لَا دَرَیْتَ وَلَا تَلَیْتَ ، ثُمَّ یُضْرَبُ بِمِطْرَقَۃٍ مِّنْ حَدِیْدٍ ضَرْبَۃً بَیْنَ أُذُنَیْہِ فَیَصِیْحُ صَیْحَۃً یَسْمَعُھَا مَنْ یَلِیْہِ إِلَّا الثَّقَلَیْنِ) [ بخاري، الجنائز، باب المیت یسمع۔۔ : 1338 ]”بندہ جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس سے رخ پھیرلیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس چل دیتے ہیں، یہاں تک کہ وہ ان کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے، تو اس کے پاس دو فرشتے آجاتے ہیں، اسے بٹھا دیتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں : ”اس شخص یعنی محمد ﷺ کے بارے میں تو کیا کہتا ہے ؟“ وہ جواب دیتا ہے : ”میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔“ تو اس سے کہا جاتا ہے : ”جہنم میں اپنے ٹھکانے کی طرف دیکھ، اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں تیرے لیے ایک ٹھکانا جنت میں بنادیا ہے۔“ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”پھر اس بندۂ مومن کو جنت و جہنم دونوں دکھائی جاتی ہیں۔ اور رہا کافر یا منافق تو وہ (اس سوال کے جواب میں) کہتا ہے : ”مجھے نہیں معلوم، میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا تھا، وہی میں بھی کہتا رہا۔“ تو اسے کہا جاتا ہے : ”نہ تو نے کچھ سمجھا اور نہ (اچھے لوگوں کی) پیروی کی۔“ اس کے بعد ہتھوڑے کے ساتھ اس کے دونوں کانوں کے درمیان (یعنی سر پر) بڑی زور سے مارا جاتا ہے اور وہ اتنے بھیانک طریقے سے چیختا ہے کہ انسان اور جن کے سوا اردگرد کی تمام مخلوق اس چیخ چیخ پکار کو سنتی ہے۔“ دوسرا موقع ابو طلحہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے بدر کے دن قریش کے سرداروں میں سے چوبیس آدمیوں کے متعلق حکم دیا تو وہ بدر کے کنوؤں میں سے ایک خبیث گندگی والے کنویں میں پھینک دیے گئے اور آپ ﷺ جب کسی قوم پر فتح پاتے تو میدان میں تین دن ٹھہرتے تھے۔ جب بدر میں تیسرا دن ہوا تو آپ نے اپنی اونٹنی کے متعلق حکم دیا تو اس پر اس کا پالان کسا گیا، پھر آپ چل پڑے اور آپ کے پیچھے آپ کے اصحاب بھی چل پڑے اور کہنے لگے، ہمارا خیال یہی ہے کہ آپ اپنے کسی کام کے لیے جا رہے ہیں، یہاں تک کہ آپ اس کنویں کے کنارے پر کھڑے ہوگئے اور انھیں ان کے اور ان کے باپوں کے نام لے لے کر پکارنے لگے : (یَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ ، وَ یَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ ! أَیَسُرُّکُمْ أَنَّکُمْ أَطَعْتُمُ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ ؟ فَإِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا، فَھَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا ؟ قَالَ فَقَالَ عُمَرُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! مَا تُکَلِّمُ مِنْ أَجْسَادٍ لَا أَرْوَاحَ لَھَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ ! مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُوْلُ مِنْھُمْ) [ بخاري، المغازي، باب قتل أبي جھل : 3976 ] ”اے فلاں بن فلاں ! اور اے فلاں بن فلاں ! کیا تمہیں پسند ہے کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی، کیونکہ ہم نے تو جو ہمارے رب نے ہم سے وعدہ کیا اسے حق پایا، تو کیا تم نے بھی جو تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا، حق پایا ؟“ تو عمر ؓ نے کہا : ”یا رسول اللہ ! آپ ان جسموں سے کیا بات کرتے ہیں جن میں روحیں نہیں ہیں۔“ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے ! تم ان سے زیادہ وہ باتیں سننے والے نہیں جو میں انھیں کہہ رہا ہوں۔“ 3 ہمارا ایمان ہے کہ ان دونوں موقعوں پر مردے وہ بات سنتے ہیں جس کا حدیث میں ذکر ہے، ان کے سوا مردے زندوں کی کوئی بات نہیں سنتے، مگر ان دو احادیث کو بنیاد بنا کر بعض لوگوں نے عقیدہ بنا لیا کہ تمام مردے سنتے ہیں اور ہر بات ہر وقت سنتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ مردہ پرستی اور غیر اللہ کو پکارنے اور ان سے فریاد کرنے کی بنیاد یہی عقیدہ ہے کہ مردے سنتے ہیں، ورنہ اگر یقین ہو کہ وہ سنتے ہی نہیں تو پاگل ہی ہوگا جو انھیں پکارے گا۔ قرآن مجید میں مردوں کے نہ سننے کا مضمون متعدد جگہ بیان ہوا ہے۔ دیکھیے سورة روم (52) اور فاطر (19 تا 22) بلکہ مردوں کو خبر ہی نہیں کہ کوئی انھیں پکار رہا ہے۔ دیکھیے سورة نحل (20، 21) ، فاطر (13، 14) اور احقاف (4 تا 6) اور قیامت سے پہلے فوت شدہ لوگ واپس بھی نہیں آتے۔ دیکھیے سورة یٰس (31) اور انبیاء (95) عزیر ؑ اور جن حضرات کا دنیا میں زندہ ہونا قرآن یا صحیح حدیث سے ثابت ہے، وہ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ 3 قبر پرستوں کے برعکس کچھ لوگوں نے ان دو مواقع پر بھی مردوں کے سننے سے انکار کردیا، پھر ان میں سے بعض نے تو صاف ان حدیثوں کا انکار کردیا، حالانکہ یہ صحیح بخاری کی احادیث ہیں جن کی صحت پر امت کا اتفاق ہے اور بعض نے ان کی ایسی لغو تاویلیں کیں جو انکار سے بھی بدتر ہیں، حالانکہ حق افراط و تفریط کے درمیان ہے۔
Top