Al-Quran-al-Kareem - An-Naml : 82
وَ اِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ١ۙ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ۠   ۧ
وَاِذَا : اور جب وَقَعَ الْقَوْلُ : واقع (پورا) ہوجائے گا وعدہ (عذاب) عَلَيْهِمْ : ان پر اَخْرَجْنَا : ہم نکالیں گے لَهُمْ : ان کے لیے دَآبَّةً : ایک جانور مِّنَ الْاَرْضِ : زمین سے تُكَلِّمُهُمْ : وہ ان سے باتیں کرے گا اَنَّ النَّاسَ : کیونکہ لوگ كَانُوْا : تھے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیت پر لَا يُوْقِنُوْنَ : یقین نہ کرتے
اور جب ان پر بات واقع ہوجائے گی تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک جانور نکالیں گے، جو ان سے کلام کرے گا کہ یقینا فلاں فلاں لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
وَاِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ۔۔ : یعنی جس وعید کو یہ لوگ جھٹلا رہے ہیں اور اسے لانے کی جلدی مچا رہے ہیں، جب اس کا وقت آجائے گا تو ہم زمین سے ایک جانور نکالیں گے جو انوکھی قسم کا ہوگا (تنوین تنکیر سے انوکھے کا مفہوم پیدا ہو رہا ہے)۔ وہ جانور قیامت کی علامات میں سے ہوگا، اس کے بعد ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا، کیونکہ آخرت کی حقیقتوں سے حجاب اٹھنے کے بعد آزمائش کا مقصد ختم ہوجاتا ہے۔ بعض تفاسیر میں ہے کہ وہ جانور ستر ہاتھ لمبا ہوگا، اس کی چار ٹانگیں اور دو پر ہوں گے، اس کے پاس موسیٰ ؑ کا عصا اور سلیمان ؑ کی انگوٹھی ہوگی وغیرہ۔ مگر کسی صحیح حدیث میں اس جانور کی کیفیت بیان نہیں ہوئی، اس لیے ہمیں اتنا ہی کافی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا۔ بعض لوگوں نے اسے حدیث دجّال میں مذکور جانور ”جساسہ“ قرار دیا ہے اور بعض نے یاجوج ماجوج، مگر یہ سب اندھیرے میں تیر ہیں۔ تُكَلِّمُهُمْ : وہ جانور لوگوں سے بات کرے گا۔ قیامت کے قریب اس قسم کے عجیب و غریب واقعات کثرت سے ہوں گے کہ وہ چیزیں جو عام طور پر کلام نہیں کرتیں، کلام کریں گی۔ ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ ! لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی تُکَلِّمَ السِّبَاعُ الإِْنْسَ ، وَ حَتّٰی یُکَلِّمَ الرَّجُلَ عَذَبَۃُ سَوْطِہِ وَشِرَاکُ نَعْلِہِ وَتُخْبِرُہُ فَخِذُہُ بِمَا أَحْدَثَ أَھْلُہُ بَعْدَہُ) [ ترمذي، الفتن، باب ما جاء في کلام السباع : 2181، و قال الألباني صحیح و رواہ أحمد : 3؍84، ح : 11798 ] ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! قیامت قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ درندے انسانوں سے کلام کریں گے اور آدمی سے اس کے کوڑے کا کنارا اور جوتے کا تسمہ بات کرے گا اور اس کی ران اسے بتائے گی کہ اس کے گھر والوں نے اس کے بعد کیا کیا۔“ حتیٰ کہ جب قیامت بالکل قریب ہوگی اور اس کی علامات خاصہ کا ظہور شروع ہوگا، جن کے ظاہر ہونے کے بعد کسی کا ایمان لانا قبول نہیں ہوگا (دیکھیے انعام : 158) اس وقت وہ جانور زمین سے نکلے گا۔ حذیفہ بن اسید غفاری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بالا خانے سے ہمیں جھانک کر دیکھا، ہم قیامت کے بارے میں باتیں کر رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا : (إِنَّھَا لَنْ تَقُوْمَ حَتّٰی تَرَوْنَ قَبْلَھَا عَشْرَ آیَاتٍ ، فَذَکَرَ الدُّخَانَ ، وَالدَّجَّالَ ، وَالدَّابَّۃَ ، وَ طُلُوْعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِھَا، وَنُزُوْلَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ ، وَیَأْجُوْجَ وَ مَأْجُوْجَ ، وَثَلَاثَۃَ خُسُْوْفٍ ، خَسْفٌ بالْمَشْرِقِ ، وَ خَسْفٌ بالْمَغْرِبِ ، وَ خَسْفٌ بِجَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ ، وَ آخِرُ ذٰلِکَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنَ الْیَمَنِ ، تَطْرُدُ النَّاسَ إِلٰی مَحْشَرِھِمْ) [ مسلم، الفتن، باب في الآیات التي تکون قبل الساعۃ : 2901 ] ”قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تم دس نشانیاں دیکھو۔“ اور آپ نے وہ نشانیاں شمار کیں کہ سورج کا اس کے مغرب سے طلوع ہونا، دخان (دھواں) ، دابہ (زمین سے نکلنے والا جانور) ، یاجوج ماجوج کا نکلنا، عیسیٰ ابن مریم ؑ اور دجال کا نکلنا اور تین خسف (زمین کا دھنس جانا) ایک خسف مغرب میں، ایک خسف مشرق میں اور ایک خسف جزیرۂ عرب میں اور آخر میں یمن سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو ہانکتی ہوئی ان کے محشر کی طرف لے جائے گی۔“ عبد اللہ بن عمرو ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث سنی، جو میں ابھی تک نہیں بھولا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا : (إِنَّ أَوَّلَ الْآیَاتِ خُرُوْجًا، طُلُوْعُ الشَّمْسِ مِنْ مَّغْرِبِھَا، وَخُرُوْجُ الدَّابَّۃِ عَلَی النَّاسِ ضُحًی، وأَیُّھُمَا مَا کَانَتْ قَبْلَ صَاحِبَتِھَا، فَالْأُخْرٰی عَلٰی إِثْرِھَا قَرِیْبٌ) [ مسلم، الفتن، باب في خروج الدجال۔۔ : 2941 ] ”آیات (نشانیوں) میں سب سے پہلی سورج کا اس کے مغرب سے طلوع ہونا اور دابہ (ایک جانور) کا دوپہر کے وقت لوگوں کے سامنے نکلنا، ان میں سے جو بھی دونوں سے پہلے ہوگی، دوسری اس کے بعد قریب ہی ظاہر ہوجائے گی۔“ ابو امامہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (تَخْرُجُ الدَّابَّۃُ فَتَسِمُ النَّاسَ عَلٰی خَرَاطِیْمِھِمْ ، ثُمَّ یُغْمَرُوْنَ فِیْکُمْ حَتّٰی یَشْتَرِيَ الرَّجُلُ الْبَعِیْرَ فَیَقُوْلَ مِمَّنِ اشْتَرَیْتَہُ ؟ فَیَقُوْلُ اشْتَرَیْتُہُ مِنْ أَحَدِ الْمُخَطَّمِیْنَ) [ مسند أحمد : 5؍268، ح : 22371۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : 322 ] ”(زمین سے) ایک جانور نکلے گا، جو لوگوں کی پیشانیوں پر نشان لگائے گا اور وہ (نشان زدہ) لوگ بہت زیادہ ہوجائیں گے، حتیٰ کہ آدمی کسی سے اونٹ خریدے گا تو کوئی پوچھے گا کہ یہ تو نے کس سے خریدا ہے ؟ وہ جواب دے گا کہ میں نے یہ کسی نشان زدہ سے خریدا ہے۔“ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (بَادِرُوْا بالْأَعْمَالِ سِتًّا طُلُوْعَ الشَّمْسِ مِنْ مَّغْرِبِھَا، أَوِ الدُّخَانَ ، أَوِ الدَّجَّالَ ، أَوِ الدَّابَّۃَ ، أَوْ خَاصَّۃَ أَحَدِکُمْ ، أَوْ أَمْرَ الْعَامَّۃِ) [ مسلم، الفتن، باب في بقیۃ من أحادیث الدجال : 2947 ] ”چھ چیزوں سے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرلو، ایک سورج کا مغرب سے نکلنا، دوسری دخان (دھواں) ، تیسری دجّال، چوتھی زمین کا جانور، پانچویں موت اور چھٹی قیامت۔“ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا۔۔ : اس کی ایک تفسیر وہ ہے جس کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے کہ ”النَّاسَ“ سے مراد مخصوص لوگ ہیں، یعنی وہ جانور لوگوں سے یہ کلام کرے گا کہ فلاں فلاں لوگ (النَّاسَ) ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے، یعنی وہ ایمان نہ لانے والوں کی نشان دہی کرے گا، جیسا کہ اوپر عبداللہ بن عمرو ؓ کی حدیث میں گزرا ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ”اَن النَّاسَ“ سے پہلے لام محذوف ہے، گویا عبارت یوں ہے : ”تُکَلِّمُھُمْ لِأَنَّ النَّاسَ کَانُوْا بِاٰیَاتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ“ یعنی وہ دابہ ان سے کلام کرے گا، کیونکہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے۔ اس صورت میں اس دابّہ کا کلام کرنا ہی قیامت کی نشانی ہوگا۔ دونوں معنوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ پہلی صورت میں یہ ”ان النَّاسَ“ جانور کا کلام ہے اور بعد والے معنی کے لحاظ سے یہ ”ان النَّاسَ“ جانور یا کلام دابہ کی وجہ بیان ہوئی ہے۔
Top