Al-Quran-al-Kareem - An-Naml : 87
وَ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَفَزِعَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ١ؕ وَ كُلٌّ اَتَوْهُ دٰخِرِیْنَ
وَ يَوْمَ : جس دن يُنْفَخُ : پھونک ماری جائے گی فِي الصُّوْرِ : صور میں فَفَزِعَ : تو گھبرا جائیگا مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَنْ : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں اِلَّا : سوا مَنْ : جسے شَآءَ اللّٰهُ : اللہ چاہے وَكُلٌّ : اور سب اَتَوْهُ : اس کے آگے آئیں گے دٰخِرِيْنَ : عاجز ہو کر
اور جس دن صور میں پھونکا جائے گا تو جو بھی آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے، گھبرا جائے گا مگر جسے اللہ نے چاہا اور وہ سب اس کے پاس ذلیل ہو کر آئیں گے۔
وَ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ :”الصُّوْرِ“ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة انعام (73) گزشتہ آیت (83) میں خاص کفار کے حشر کا ذکر تھا، اب تمام مخلوق کے حشر کا ذکر ہے، تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ صرف کفار کا حشر ہوگا۔ فَفَزِعَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللّٰهُ : بعض مفسرین نے تین نفخے ذکر فرمائے ہیں، نفخۂ فزع، نفخۂ صعق اور نفخۂ قیام، مگر صحیح بات یہی ہے کہ نفخۂ فزع اور نفخۂ صعق ایک ہی ہے، کیونکہ دونوں کے بعد ”اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللّٰهُ“ ہے۔ صعق کا لفظ بےہوشی اور موت دونوں معنوں میں آتا ہے۔ پہلی دفعہ صور میں پھونکے جانے سے پیدا ہونے والی ابتدائی کیفیت فزع اور گھبراہٹ ہے، جو آخر میں ہر چیز کی ہلاکت اور فنا تک پہنچ جائے گی، پھر ایک طویل وقفے کے بعد، جس کی مدت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، دوبارہ صور میں پھونکا جائے گا تو سب لوگ زندہ ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوجائیں گے۔ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ أَرْبَعُوْنَ ، قَالَ أَرْبَعُوْنَ یَوْمًا ؟ قَالَ أَبَیْتُ ، قَالَ أَرْبَعُوْنَ شَھْرًا ؟ قَالَ أَبَیْتُ ، قَالَ أَرْبَعُوْنَ سَنَۃً ؟ قَالَ أَبَیْتُ ، قَالَ ثُمَّ یُنْزِلُ اللّٰہُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءًً فَیَنْبُتُوْنَ کَمَا یَنْبُتُ الْبَقْلُ ، لَیْسَ مِنَ الإِْنْسَانِ شَيْءٌ إِلَّا یَبْلٰی، إِلَّا عَظْمًا وَاحِدًا وَھُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ ، وَمِنْہُ یُرَکَّبُ الْخَلْقُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) [ بخاري، التفیسر، باب : (یوم ینفخ فی الصور فتأتون أفواجا) : 4935 ] ”دو نفخوں کے درمیان چالیس کا وقفہ ہے۔“ لوگوں نے کہا : ”(ابوہریرہ !) چالیس دن ؟“ انھوں نے کہا : ”میں یہ نہیں کہتا۔“ لوگوں نے کہا : ”چالیس مہینے ؟“ کہا : ”میں یہ نہیں کہتا۔“ لوگوں نے کہا : ”چالیس سال ؟“ کہا : ”میں یہ نہیں کہتا۔“ اور حدیث بیان کی : ”پھر اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی برسائے گا تو لوگ اگ آئیں گے جیسے سبزی اگتی ہے اور انسان کی کوئی چیز نہیں جو بوسیدہ نہ ہو، سوائے ایک ہڈی کے جو دم کی ہڈی ہے۔ اسی سے مخلوق کو قیامت کے دن دوبارہ جوڑا جائے گا۔“ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللّٰهُ : یعنی صور میں پھونکے جانے پر زمین و آسمان میں جو بھی ہے گھبرا جائے گا۔ سورة زمر میں فرمایا : (فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللّٰهُ ۭ) [ الزمر : 68 ] ”جو لوگ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہوں گے، مر کر گرجائیں گے مگر جسے اللہ نے چاہا۔“ یعنی آسمانوں میں اور زمین میں موجود جو بھی ہے بےہوش ہوجائے گا، ہلاک ہوجائے گا مگر جسے اللہ چاہے۔ اس سے کون لوگ مراد ہیں ؟ مفسرین میں سے بعض نے کہا کہ اس سے مراد انبیاء ہیں، بعض نے کہا شہداء، بعض نے ملائکہ اور بعض نے حورعین مراد لی ہیں، مگر ”اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللّٰهُ ۭ“ کی تعیین کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، اس لیے بہتر یہ ہے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کے سپرد کردی جائے کہ وہی بہتر جانتا ہے کہ وہ خوش نصیب کون ہیں جو اس نفخہ کے وقت نہ گھبرائیں گے، نہ بےہوش یا ہلاک ہوں گے۔ کیونکہ ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اَلنَّاسُ یَصْعَقُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَأَکُوْنُ أَوَّلَ مَنْ یُّفِیْقُ ، فَإِذَا أَنَا بِمُوْسٰی آخِذٌ بِقَاءِمَۃٍ مِنْ قَوَاءِمِ الْعَرْشِ فَلَا أَدْرِيْ أَفَاقَ قَبْلِيْ أَمْ جُوْزِيَ بِصَعْقَۃِ الطُّوْرِ ؟) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : (و واعدنا موسیٰ۔۔) : 3398 ] ”لوگ قیامت کے دن بےہوش ہوجائیں گے، تو میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جو ہوش میں آئے گا۔ اچانک میں موسیٰ ؑ کو دیکھوں گا کہ عرش کے پایوں میں سے ایک پائے کو پکڑے ہوئے ہوں گے، سو میں نہیں جانتا کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے یا انھیں طور کی بےہوشی کی جزا دی گئی۔“ تو جب سید الخلق ﷺ (جنھیں زہر خورانی کی وجہ سے شہادت کی سعادت بھی نصیب ہوئی) اس صعقہ سے مستثنیٰ نہیں تو باقی شہداء یا انبیاء و صلحاء کے متعلق یہ بات کیسے کہی جاسکتی ہے ؟ اس لیے بہتر یہ ہے کہ کہا جائے اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا اس فزع اور صعقہ سے محفوظ رکھے گا۔ اس ”اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللّٰهُ ۭ“ میں بھی اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت کا اظہار ہوگا کہ صور کی اس خوف ناک آواز کے وقت، جس سے جن، انسان، فرشتے، آسمان و زمین، سورج، چاند، ستارے اور پہاڑ، غرض ہر چیز فنا ہوجائے گی، لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا اس پر اس وقت بھی گھبراہٹ یا فناکا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ وَكُلٌّ اَتَوْهُ دٰخِرِيْنَ : ”دَخَرَ“ کے معنی میں عاجزی، ذلت اور حقارت تینوں باتیں پائی جاتی ہیں، یعنی ساری مخلوق عاجز اور حقیر بن کر اللہ کے حضور پیش ہوگی، جیسا کہ فرمایا : (اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا) [ مریم : 93 ] ”آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے وہ رحمٰن کے پاس غلام بن کر آنے والا ہے۔“
Top