Al-Quran-al-Kareem - Al-Qasas : 13
فَرَدَدْنٰهُ اِلٰۤى اُمِّهٖ كَیْ تَقَرَّ عَیْنُهَا وَ لَا تَحْزَنَ وَ لِتَعْلَمَ اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
فَرَدَدْنٰهُ : تو ہم نے لوٹا دیا اس کو اِلٰٓى اُمِّهٖ : اس کی ماں کی طرف كَيْ تَقَرَّ : تاکہ ٹھنڈی رہے عَيْنُهَا : اس کی آنکھ وَلَا تَحْزَنَ : اور وہ غمگین نہ ہو وَلِتَعْلَمَ : اور تاکہ جان لے اَنَّ : کہ وَعْدَ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ حَقٌّ : سچا وَّلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں سے بیشتر لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ نہیں جانتے
تو ہم نے اسے اس کی ماں کے پاس واپس پہنچا دیا، تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی ہو اور وہ غم نہ کرے اور تاکہ وہ جان لے کہ یقینا اللہ کا وعدہ سچ ہے اور لیکن ان کے اکثر نہیں جانتے۔
فَرَدَدْنٰهُ اِلٰٓى اُمِّهٖ : یعنی ہم نے موسیٰ ؑ کی ماں سے جو وعدہ کیا تھا کہ اسے تمہارے پاس واپس لائیں گے، اتنی دیر ہی میں پورا کردیا جتنی دیر کوئی بچہ ماں کے دودھ کے بغیر گزار سکتا ہے۔ كَيْ تَــقَرَّ عَيْنُهَا : ”قَرَّ یَقِرُّ (ض، ع) قُرَّۃً وَ قُرُوْرًا“ ”آنکھ کا ٹھنڈا ہونا۔“ تاکہ اس کی آنکھ جو بیٹے کی جدائی میں سکون سے ناآشنا تھی، آنسو بہا بہا کر اور بیدار رہ کر سرخ اور گرم ہوچکی تھی، بیٹے کے واپس ملنے، اسے دودھ پلانے اور اپنے پاس رکھنے سے ٹھنڈی اور پرسکون ہوجائے اور آرام کی نیند سو جائے اور غم زدہ نہ رہے۔ نکتہ : اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کے اعضا کا درجہ حرارت مختلف رکھا ہے، اس کی جلد کا درجہ حرارت عموماً 370 ہوتا ہے۔ جگر کو کام کرنے کے لیے 400 کے قریب درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ آنکھ کا درجہ حرارت زیادہ سے زیادہ 90 ہوتا ہے، اس سے زیادہ ہوجائے تو آنکھ پگھل کر بہ جائے، اس لیے دل کی خوشی کے لیے آنکھ کی ٹھنڈک کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ (شعراوی) 3 قدیم زمانے میں ان ممالک کے بڑے اور خاندانی لوگ بچوں کو اپنے ہاں پالنے کے بجائے دودھ پلانے والی عورتوں کے سپرد کردیتے تھے۔ خود ہمارے نبی کریم ﷺ نے بھی حلیمہ سعدیہ کے ہاں صحرا میں پرورش پائی۔ اس کے مطابق موسیٰ ؑ کو ان کی والدہ اپنے گھر لے گئیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے بیٹے کو واپس لانے کا جو وعدہ کیا تھا وہ بھی پورا ہوا اور شاہی خزانے سے ماں کو جو وظیفہ ملتا رہا وہ اس کے علاوہ تھا۔ 3 اس مقام پر بعض مفسرین نے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (مَثَلُ الَّذِيْ یَعْمَلُ وَ یَحْتَسِبُ فِيْ صِنْعَۃِ الْخَیْرِ کَمَثَلِ أُمِّ مُوْسٰی تُرْضِعُ وَلَدَھَا وَ تَأْخُذُ أَجْرَھَا) ”وہ شخص جو کام کرے اور اپنے کام میں نیکی کی نیت رکھے، اس کی مثال موسیٰ کی والدہ کی سی ہے، جو اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے اور اپنی مزدوری وصول کرتی ہے۔“ مگر ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت حدیث کی کسی کتاب میں نہیں ہے، البتہ ایک مرسل روایت ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے : (مَثَلُ الَّذِیْنَ یَغْزُوْنَ مِنْ أُمَّتِيْ وَ یَأْخُذُوْنَ الْجُعْلَ یَتَقَوَّوْنَ بِہِ عَلٰی عَدُوِّھِمْ کَمَثَلِ أُمِّ مُوْسٰی تُرْضِعُ وَلَدَھَا وَ تَأْخُذُ أَجْرَھَا) ”میری امت کے جو لوگ جنگ کرتے ہیں اور وظیفہ لیتے ہیں، جس کے ساتھ دشمن کے مقابلے میں قوت حاصل کرتے ہیں، ان کی مثال ام موسیٰ کی سی ہے جو اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے اور اپنی مزدوری وصول کرتی ہے۔“ یہ روایت مرسل (جو ضعیف کی ایک قسم ہے) ہونے کے علاوہ سند کے لحاظ سے بھی ضعیف ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے ”سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ للألباني (ح : 4500)“ اس حدیث میں جو بات بیان ہوئی ہے اگرچہ فی نفسہ درست ہے، جو اپنی طرف سے بطور مثال بیان کی جاسکتی ہے، مگر رسول اللہ ﷺ کے ذمے وہی بات لگانے کی اجازت ہے جو آپ سے ثابت ہو، ورنہ ”مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ“ کی وعید کا مصداق بننے کا خطرہ ہے۔ وَلِتَعْلَمَ اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ : یعنی ہم نے موسیٰ ؑ کو اس کی ماں کے پاس واپس پہنچا دیا، تاکہ اسے پہلے وحی کے ذریعے سے سن کر اللہ کا وعدہ حق ہونے کا علم تھا، تو اب آنکھوں سے دیکھ کر اس کے حق ہونے کا علم ہوجائے۔ پہلے اگر علم الیقین تھا تو اب عین الیقین ہوجائے۔ (بقاعی) وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ : یعنی اکثر لوگ نہیں جانتے کہ اللہ کا وعدہ حق ہے۔ ان کا حال یہ ہے کہ جوں ہی کسی کام میں کوئی مشکل پیش آتی ہے، اللہ تعالیٰ سے بدظن ہوجاتے ہیں اور انھیں اللہ کے وعدے پر یقین نہیں رہتا، حالانکہ اس کا وعدہ خلاف نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ اسباب کو کچھ اس طرح پھیر کر لاتا ہے جو انسانی سمجھ سے باہر ہوتا ہے اور جس چیز کا گمان بھی نہیں ہوتا وہ آنکھوں کے سامنے لے آتا ہے۔ پھر بعض اوقات آدمی ایک چیز کو برا سمجھتا ہے جب کہ وہ اس کے حق میں بہتر ہوتی ہے اور ایک چیز کو اچھا سمجھتا ہے جب کہ وہ اس کے حق میں بری ہوتی ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (216) اور نساء (19)۔ ہاں مشو نومید چوں واقف نہ ای ز اسرار غیب باشد اندر پردہ بازی ہائے پنہاں غم مخور ”خبردار ! ناامید نہ ہو، کیونکہ تو غیب کے اسرار سے واقف نہیں۔ پردے کے اندر کئی پوشیدہ کھیل ہو رہے ہوتے ہیں، غم مت کر۔“
Top