Al-Quran-al-Kareem - Al-Qasas : 14
وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰۤى اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا١ؕ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ
وَلَمَّا : اور جب بَلَغَ اَشُدَّهٗ : وہ پہنچا اپنی جوانی وَاسْتَوٰٓى : اور پورا (توانا) ہوگیا اٰتَيْنٰهُ : ہم نے عطا کیا اسے حُكْمًا : حکمت وَّعِلْمًا : اور علم وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نَجْزِي : ہم بدلہ دیا کرتے ہیں الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والے
اور جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا اور پورا طاقتور ہوگیا تو ہم نے اسے قوت فیصلہ اور علم عطا کیا اور اسی طرح نیکی کرنے والوں کو ہم بدلہ دیتے ہیں۔
وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَاسْتَوٰٓى : یہاں ایک لمبی بات حذف کردی گئی ہے کہ موسیٰ ؑ کے رضاعت کے ایام اپنی والدہ کے پاس گزرے، جس سے انھیں اپنے والدین، بھائی بہن اور خاندان سے شناسائی ہوگئی اور آئندہ بھی اس تعلق کی وجہ سے میل جول جاری رہا، جس سے وہ اپنے آبائے کرام ابراہیم، اسحاق اور یعقوب ؑ اور ان کے دین سے واقف ہوگئے اور بنی اسرائیل کی زبوں حالت پر براہ راست مطلع رہنے لگے۔ رضاعت کے بعد شاہی محل میں منتقل ہونے کے ساتھ ان کی پرورش اور تربیت ایک شہزادے کی حیثیت سے ہوئی، انھیں اس وقت کے تمام علوم و فنون، لکھنے پڑھنے اور جہانبانی کے طریقے سکھائے گئے، جنگ میں درکار عام تربیت اور سپہ سالاری کے لیے خاص تربیت دی گئی۔ ان تمام چیزوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی خاص نگرانی اور تربیت تھی، جس کے ذریعے سے انھیں آنے والی ذمہ داری کے لیے تیار کیا گیا، حتیٰ کہ وہ اپنی پوری جوانی کو پہنچ گئے۔ ”بَلَغَ اَشُدَّهٗ“ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة یوسف (22) وہاں یوسف ؑ کے لیے صرف ”بَلَغَ اَشُدَّهٗ“ کا لفظ آیا ہے، جب کہ یہاں موسیٰ ؑ کے لیے ”وَاسْتَوٰٓى“ کا لفظ بھی آیا ہے، یعنی وہ پورے طاقت ور ہوگئے، کیونکہ جسمانی قوت یوسف ؑ میں موسیٰ ؑ جیسی نظر نہیں آتی۔ اٰتَيْنٰهُ حُكْمًا وَّعِلْمًا : ”حُكْمًا“ کا معنی فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہے اور ”عِلْمًا“ سے مراد دنیا اور دین کا علم ہے، یعنی جوان ہونے پر ہم نے انھیں حق و باطل میں فیصلہ کرنے کی اہلیت عطا فرمائی اور دنیا و دین دونوں کا علم عطا فرمایا۔ جس میں سے دنیا کے علوم شاہی محل کے ذریعے سے حاصل ہوئے اور دین کا علم اور اس کا فہم والدہ کے گھر اور خاندان کے ذریعے سے حاصل ہوا۔ بعض مفسرین نے ”حُكْمًا وَّعِلْمًا“ سے مراد نبوت لی ہے، مگر یہاں یہ معنی درست معلوم نہیں ہوتا، کیونکہ نبوت تو اس کے دس سال بعد طور پر عطا ہوئی، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ : احسان کا معنی نیک کام کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے احسان کی تفسیر ”أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ“ کے ساتھ فرمائی ہے کہ ”اللہ کی عبادت ایسے کرنا گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، پھر اگر اسے نہیں دیکھتے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔“ [ دیکھیے بخاري، الإیمان، باب سؤال جبریل۔۔ : 50 ] احسان کا ایک معنی یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی معاوضہ کی طلب یا خواہش کے بغیر کسی کے ساتھ نیکی کرنا، جیسا کہ بنی اسرائیل کے نیک لوگوں نے قارون کو نصیحت کی تھی : (وَاَحْسِنْ كَمَآ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَيْكَ) [ القصص : 77 ] ”اور احسان کر جیسے اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے۔“ فرمایا : ”ہم محسنین کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں“ اس سے معلوم ہوا موسیٰ ؑ احسان کی صفت سے پوری طرح آراستہ تھے، جس کی جزا میں اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم و علم عطا فرمایا۔
Top