Al-Quran-al-Kareem - Al-Qasas : 30
فَلَمَّاۤ اَتٰىهَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَةِ الْمُبٰرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ اَنْ یّٰمُوْسٰۤى اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَۙ
فَلَمَّآ : پھر جب اَتٰىهَا : وہ آیا اس کے پاس نُوْدِيَ : ندا دی گئی مِنْ شَاطِیٴِ : کنارہ سے الْوَادِ الْاَيْمَنِ : میدان وادیاں فِي الْبُقْعَةِ : جگہ میں الْمُبٰرَكَةِ : برکت والی مِنَ الشَّجَرَةِ : ایک درخت سے اَنْ : کہ يّٰمُوْسٰٓي : اے موسیٰ اِنِّىْٓ اَنَا : بیشک میں اللّٰهُ : اللہ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ : جہانوں کا پروردگار
تو جب وہ اس کے پاس آیا تو اسے اس بابرکت قطعہ میں وادی کے دائیں کنارے سے ایک درخت سے آواز دی گئی کہ اے موسیٰ ! بلاشبہ میں ہی اللہ ہوں، جو سارے جہانوں کا رب ہے۔
فَلَمَّآ اَتٰىهَا نُوْدِيَ۔۔ :”شَاطی الْوَادِ الْاَيْمَنِ“ کی تفسیر کے لیے دیکھے سورة مریم (52) اور طٰہٰ (80) ”مِنَ الشَّجَرۃِ“ جب موسیٰ ؑ اس آگ کے پاس آئے تو دیکھا کہ سرسبز درخت میں آگ لگی ہوئی ہے، جس سے جلنے کے بجائے درخت مزید سرسبز اور خوب صورت دکھائی دے رہا ہے۔ موسیٰ ؑ حیرت سے یہ منظر دیکھ ہی رہے تھے کہ درخت میں سے آواز آئی : ”اے موسیٰ ! بلاشبہ میں ہی اللہ ہوں جو رب العالمین ہے۔“ اِنِّىْٓ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ : دیکھیے سورة طٰہٰ (14) اللہ تعالیٰ نے یہاں موسیٰ ؑ کو دو ناموں کے ساتھ اپنا تعارف کروانے کا ذکر فرمایا ہے، ایک ”اللّٰهُ“ جو ذاتی نام ہے، جس میں اس کی ساری صفات آجاتی ہیں اور دوسرا ”رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ“ جو اللہ کے اسماء میں سے ایسا اسم ہے جس میں اس کی وہ تمام صفات آجاتی ہیں جن کے آثار آدمی کے مشاہدے میں آتے ہیں۔ سورة طٰہٰ میں بھی انھی دو اسماء کا ذکر ہے، جیسے فرمایا : (اِنِّىْٓ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ) [ طٰہٰ : 12 ] اور (اِنَّنِيْٓ اَنَا اللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا) [ طٰہٰ : 14 ] یہاں بات مختصر کی ہے، سورة طٰہٰ میں ان اسماء کے تقاضے پر عمل کا بھی حکم دیا ہے، فرمایا : (اِنَّنِيْٓ اَنَا اللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ اَكَادُ اُخْفِيْهَا لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا تَسْعٰي فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لَّا يُؤْمِنُ بِهَا وَاتَّبَعَ هَوٰىهُ فَتَرْدٰى) [ طٰہٰ : 14 تا 16 ] ”سو میری عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔ یقیناً قیامت آنے والی ہے، میں قریب ہوں کہ اسے چھپا کر رکھوں، تاکہ ہر شخص کو اس کا بدلا دیا جائے جو وہ کوشش کرتا ہے۔ سو تجھے اس سے وہ شخص کہیں روک نہ دے جو اس پر یقین نہیں رکھتا اور اپنی خواہش کے پیچھے لگا ہوا ہے، پس تو ہلاک ہوجائے گا۔“ سورة نمل میں دو مزید صفات کا بھی ذکر ہے، فرمایا : (يٰمُوْسٰٓي اِنَّهٗٓ اَنَا اللّٰهُ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ) [ النمل : 9 ] ”اے موسیٰ ! بیشک حقیقت یہ ہے کہ میں ہی اللہ ہوں، جو سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر ان تمام صفات کا ذکر فرمایا تھا، پھر ہر سورت میں اس کے مضمون کے مطابق ان میں سے چند صفات کا ذکر فرما دیا۔
Top