Al-Quran-al-Kareem - Al-Qasas : 34
وَ اَخِیْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِیَ رِدْاً یُّصَدِّقُنِیْۤ١٘ اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّكَذِّبُوْنِ
وَاَخِيْ : اور میرا بھائی هٰرُوْنُ : ہارون هُوَ : وہ اَفْصَحُ : زیادہ فصیح مِنِّيْ : مجھ سے لِسَانًا : زبان فَاَرْسِلْهُ : سو بھیجدے اسے مَعِيَ : میرے ساتھ رِدْاً : مددگار يُّصَدِّقُنِيْٓ : اور تصدیق کرے میری اِنِّىْٓ اَخَافُ : بیشک میں ڈرتا ہوں اَنْ : کہ يُّكَذِّبُوْنِ : وہ جھٹلائیں گے مجھے
اور میرا بھائی ہارون، وہ زبان میں مجھ سے زیادہ فصیح ہے، تو اسے میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیج کہ میری تصدیق کرے، بیشک میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے جھٹلا دیں گے۔
وَاَخِيْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّيْ لِسَانًا۔۔ : ”رِدْاً“ مددگار، دیوار کا پشتہ جو اسے مضبوط کرنے کے لیے لگایا جائے۔ بعض روایات میں ہے کہ ایک دفعہ بچپن میں موسیٰ ؑ نے فرعون کی ڈاڑھی پکڑ لی تو اس نے کہا، یہ وہی ہے جس کے ہاتھوں میری سلطنت کے زوال کی پیش گوئی کی گئی ہے، اس وجہ سے اس نے موسیٰ ؑ کو قتل کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ آسیہ[ نے کہا، یہ بچہ ہے، اسے ان باتوں کی کیا خبر ؟ اس کے سامنے انگارا اور ہیرا رکھ کر دیکھ لو، جب موسیٰ ؑ کے سامنے انگارا اور ہیرا رکھ کر ان کی آزمائش کی جانے لگی اور موسیٰ ؑ ہیرے کی طرف ہاتھ بڑھانے لگے، تو جبریل ؑ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر انگارے کی طرف کردیا اور انھوں نے اسے اٹھا کر منہ میں ڈال لیا، جس سے ان کی زبان جل گئی اور لکنت پیدا ہوگئی۔ مگر یہ حکایت کسی معتبر ذریعے سے ثابت نہیں۔ البتہ سورة طٰہٰ (25 تا 28) میں مذکور موسیٰ ؑ کی دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زبان میں کچھ گرہ تھی جس کی وجہ سے انھیں بات سمجھانے میں دقت پیش آتی تھی اور انھوں نے اسے دور کرنے کی دعا کی تھی۔ فرعون نے بھی انھیں اس بات کا طعن دیا تھا : (اَمْ اَنَا خَيْرٌ مِّنْ ھٰذَا الَّذِيْ هُوَ مَهِيْنٌ ڏ وَّلَا يَكَادُ يُبِيْنُ) [ الزخرف : 52 ] ”بلکہ میں اس شخص سے بہتر ہوں، وہ جو حقیر ہے اور قریب نہیں کہ وہ بات واضح کرے۔“ یہاں دوسرا خطرہ انھوں نے یہ ذکر کیا ہے کہ بات پوری طرح واضح نہ کرسکنے کی وجہ سے میں ڈرتا ہوں کہ فرعون اور اس کے سردار مجھے جھٹلا دیں گے، ہارون کی زبان مجھ سے زیادہ فصیح ہے، اگر بحث کی نوبت آگئی تو وہ میرے مددگار ثابت ہوں گے، اس لیے انھیں میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیج کہ میری تصدیق کریں، یعنی حق کو خوب کھول کر بیان کریں، کفار کے اعتراضات کا ایسا جواب دیں کہ انھیں جھٹلانے کی جرأت نہ ہو۔ سورة طٰہٰ (29 تا 36) میں یہ بات زیادہ تفصیل سے مذکور ہے۔ ان آیات سے ظاہر ہے کہ موسیٰ ؑ رسالت کی ذمہ داری بہترین طریقے سے ادا کرنے میں کس قدر مٰخلص اور اس کے لیے کتنے فکر مند تھے۔
Top